Accountability creates an environment of trust and lack of it result in chaos. Public has a right to ask the leaders to justify their actions and decisions. Do political leaders feel accountable?
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
جواب دہ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، تہترواں انشا، شارق علی
میڈنگلے ہال میں ہمارے قیام کا دوسرا دن تھا. کیمبرج سے چار میل دور یہ پر وقارعمارت چاروں طرف دل نشیں باغات سے گھری ہوئی ہے. ٹیچرزٹریننگ روایتی طور پر یہیں ہوتی ہے. انکل کیمبرج میں کیا کورس یاد کر رہے تھے. بولے. سولہویں صدی میں بنی سات ایکڑ پر پھیلی یہ عمارت ایک امیر آدمی کا فارم ہاؤس ہوا کرتا تھی. پرنس چارلس نے زمانہ طالب علمی میں اسے کرانے پر لے کریہاں قیام کیا تھا اور اب اس کے کشادہ کمروں کو چودہ میٹنگ روم، ریستوران اور تیس رہائشی کمروں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے. آرائش ، سہولتیں اور کھانے پینے کا انتظام اعلی درجے کا. عمارت کے گرد نایاب، قدیم اور خوبصورت درخت، پر سکون جھیل اور دور تک پھیلے فرحت انگیز سبزہ زار ہیں. شام ہوتی تو ہم گھنٹوں گھومتے. کورس گروپوں میں بٹ کر مختلف موضوعا ت پر مذاکروں پر مشتمل تھا. بارش ہو تو کمروں میں ورنہ باغ کےمختلف حصّوں میں مباحثے ہوتے. اس دن کوفی روم میں ٹی وی پر لگی خبریں دیکھ کر فل نے کہا. ٢٠٠٣ کی رات دنیا کے ٹی وی سکرین بغداد پر بمباری کے مناظر دکھا رہے تھے اور آج ٢٠١٦ میں اس ہولناک اور بلا جواز جنگ کا فیصلہ کرنے والے ٹونی بلیئر احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہیں.اور شاید کل سزا وار بھی ہوں. یہ ہے احتساب کی طاقت. احتساب کیا ہوتا ہے دادا جی؟ میں نے پوچھا. بولے. صحتمند معاشرے با اختیار لوگوں مثلاً حکمران، سیاستدان، جج، ڈاکٹر وغیرہ سے نہ صرف یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ دیانتدار ہوں گے بلکہ یہ بھی کہ وہ اپنے فیصلوں کو دلیلوں سے ثابت کرنے، ان کی منطقی وجوہات بتانے کے قابل بھی. احتساب کردار اور اہلیت کی درستگی کا تعین کرتا ہے. جیسے عدالت مجرم کو سزا دیتی ہے؟ میں نے پوچھا. یانی آپا بولیں. مقصد صرف سزا دینا نہیں ہوتا. احتساب دراصل اس ماحول کو کہتے ہیں جس میں باہمی اعتماد اور ہم آہنگ عملداری سماج کو سر افرازی کی سمت لے جا سکے. جس معاشرے میں دیانتدار احتساب نہ ہو اور صرف عوام کو دھوکہ دینے کے لئے محض احتساب کا لیبل لگا لیا جائے تو وہاں بد اعتمادی، مایوسی، انتشار، رشوت ستانی اوراقربا پروری جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں. پھر خود احتسابی تو ہر شخص پر لازم ہے. لیکن کیسے؟ میں نے پوچھا. دادا جی بولے. خود احتسابی دیانت دار سوچ سے شروع ہوتی ہے. وہ شخص جو اپنی اقدار، ترجیحات اور مقصد سے واقف ہو، اپنی صلاحیتوں، کامیابیوں اور ناکامیوں کی مکمل ذمّے داری لے سکے اور دوسروں پر الزام تراشی نہ کرے، وہ خود احتسابی سے فائدہ اٹھاتا ہے. کسی بھی قائد میں خود احتسابی کا ہونا بے حد ضروری ہے. بلند کردار اور عھدے کے لئے قابلیت رکھنے والا قائد خود احتسابی سے آنیوالی مشکلات کے لئے خود کو تیار کر سکتا ہے، اپنی غلطیوں سے سیکھ سکتا ہے……..جاری ہے