Only five percent of rich and powerful owned the land, the source of wealth during dark ages in europe. Ninety five percent serfs who generated this wealth were hand to mouth having average life span of thirty years. Catholic church supported the powerful
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
جاگیردار، سیج، انشے سیریل، اکیسواں انشاء، شارق علی
بل کھاتی سڑک پر تیرتی ہوئی سبز کار میں میلوں سفر کیا۔ خوب رو درختوں، شاداب فصلوں اور پھولوں بھری جھاڑیوں سے ڈھکی ہلکی اونچی پہاڑیوں اورسر سبز میدانوں سے گزرے۔ کہیں گنگناتی ندیاں ملیں جن کے نام کے ساتھ دریا لگا دیکھ کر ہنسی آتی۔ سارے سفر میں آسمان رنگ بدلتا رہا ۔ ابھی بادل کے ٹکڑوں کے ساتھ نکھری ہوئی دھوپ میں نیلا ہے۔ چند منٹ بعد گہرے بادلوں اور بارش سے سارا منظر شرابور۔ کسی گاوں سے گزرتے تو قرینے سے بنے خوبصورت گھروں کی قطاریں اور قدیم چرچ کے ساتھ لگا قبرستان نظر آتا۔ پھر تھیکسٹڈ نامی قصبے میں کچھ دیر رکے اور لنچ کیا۔ پروفیسر گل انگلینڈ کی کائونٹی ایسیکس کا ذکر کر رہے تھے۔ کیسا ہے تھیکسٹڈ؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ چھوٹا سا دلکش قصبہ جو چار قابل ذکر تاریخی عمارتوں کی متانت سنبھالے ہوئے ہے۔ لکڑی سے بنا گلڈہال، اٹھارویں صدی میں تعمیر ہوئی بڑی سی پن چکی، دو قدیم بے آسراوں کے گھر اور ایک شاندار چرچ۔ ۹۸۱ ص ع سے یہاں چرچ اور آبادی کے آثار ملتے ہیں۔ تیرھویں سے پندرھویں صدی میں اس قصبے نے کٹلری کی صنعت میں خوب نام کمایا۔ اس تین سو سالہ خوشحالی سے یہاں کا عظیم پیرش چرچ تعمیر ہوا۔ رنگین شیشوں سے سجا یہ چرچ مشرقی انگلینڈ کا سب سے خوبصورت چرچ ہے۔ ۱۹۱۰ سے ۱۹۴۲ تک اس کی امامت پادری کونریڈ نیل نے کی تھی جو اشتراکی خیالات رکھتا تھا۔ کہتے ہیں اس نے ایک مذہبی تقریب میں اس چرچ پر سرخ جھنڈا لہرا دیا تھا۔ یورپ کے بیشتر چرچ تاریک دور میں قائم ہوئے۔ کوئی آٹھ سو سال پہلے وہاں حکومت اور سماج دونوں ہی جاگیر داری نظام کی گرفت میں تھے۔ جاگیر داری نظام؟ رمز نے وضاحت چاہی۔ بولے۔ جاگیردار اور جاگیر اس نظام کا مرکز تھا اور ماتحت بستیوں میں آباد زمینوں پر کام کرنے والے سرف یعنی کسان اس سماج کی سب سے نچلی لیکن بنیادی اینٹ تھے۔ جاگیر دار کی خدائی بادشاہ کو لگان یا سپاہی مہیا کرنے کی صورت میں قائم رہتی۔ بادشاہ انہی خدمات سے خوش ہوتا تو مزید زمین سے نوازتا۔ گویا سب سے اوپر بادشاہ اور اس کی جانشین اولاد، اس کے بعد بیرن یعنی بڑے جاگیردار اور پھر مقامی چھوٹے جاگیر دار۔ اس نظام کو مذہبی جواز بشپس فراہم کرتے تھے جو خود بہت سی جاگیر کے مالک ہوتے تھے۔ کیتھولک چرچ ان دنوں پورے یورپ میں سیاسی لحاظ سے بے حد طاقتور تھا۔ عام لوگوں کی آمدنی پر اس کا لگان دس فیصد تھا۔ زندگی کیسی تھی ان دنوں؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ بادشاہ، بشپس اور جاگیردار بے حد امیر تھے اور نوے فیصد کسان کسمپرسی میں دن گزارتے تھے۔ بادشاہ کے پاس فوج اور بشپس کے پاس مذہب کی اجارہ داری تھی جو طاقتور کو ظلم کا جواز فراہم کرتی اور عام لوگوں کو آسمانی عذاب سے ڈراتی تھی ۔ ذرخیز زمین سے خوش حالی اور دولت دراصل کسان پیدا کرتے لیکن اس نظام میں ان کی سماجی حیثیت سب سے نچلی تھی۔ چھوٹے موٹے ہنرمند تو پھر بھی نسبتاً آسودہ تھے لیکن کسان جو کے بنیاد تھے اس نظام کی اور جنہوں نے سماج کا سارا بوجھ کندھوں پر اٹھا رکھا تھا، بے حد دشوار بلکہ غلاموں جیسی زندگی گزارتے تھے۔ بیشتر صرف تیس پینتیس سال کی عمر میں مر جاتے تھے۔ اور جاگیر دار؟ رمز نے پوچھا۔ بولے جاگیردار کی حویلی یا قلعہ میلوں ٹھیلوں اور جنگ کی صورت میں پناہ گاہ کی صورت اختیار کر لیتا تھا۔ وہ مالک تھا۔ کسانوں، ان کی بستیوں، جانوروں، فصلوں گویا ہر چیز کا مالک۔ بادشاہوں کا خیال تھا کہ انہیں حکمرانی کا حق خدا نے عطا کیا ہے۔ بشپس ان کی ہم نوائی کرتے تھے اور جاگیردار کسانوں سے جیسا جی چاہتا سلوک کرتے، عدالتیں لگاتے، کردہ و نا کردہ جرائم کی سزا دیتے تھے۔ سوفی بولی۔ یہ آٹھ سو برس پرانے برطانیہ کا ذکر ہے یا آج کے پاکستان کی دیہاتی زندگی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے