Ghaffar paan seller is a victim of social injustice and unfair practices in many parts of our world. An innocent common man struggling to survive in the world of powerful and above the law
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
غفار پنواڑی، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستانواں انشاء، شارق علی
وہ جو چھوٹا سا بازار ہے نا گھر کے پاس۔ پرچون کی دوکان، دھوبی، سائیکل والا، مزدوروں کا ہوٹل، درخت کے نیچے موچی اور ایک پان کا کھوکھا۔ وہاں چیونگم خریدنے جاؤ تو نظر آتا ہے وہ پنواڑی۔ میں، دادا جی اور یانی آپا لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے جب میں نے یہ قصہ چھیڑا۔ میں نے کہا۔ اسٹول پر بیٹھا غفار، سامنے تختے پر پان، کتھا، چھالیہ، چونا ، گل قند اور رنگ برنگے پان مصالحے۔ برنیوں میں رکھی لولی پوپ، چیونگ گم اور رسی پر جھولتی شاہی سپاری کی پڑیاں۔ دکھنے میں کیسا ہے وہ پنواڑی؟ یانی آپا نے پوچھا۔ میں نے کہا۔ دبلا پتلا، کھچڑی بال، بھنچے ہوئے ہونٹ، پچکے گال اور پان سے سرخ دانت۔ آنکھیں بہت اداس ہیں اس کی۔ بات بہت کم کرتا ہے۔ کبھی کسی چھوٹی سی بات پر اچانک غصے میں آ جائے تو کھانسی کے دوروں کے ساتھ مغلظات ۔ پھر کام چھوڑ چھاڑ ایک طرف بیٹھ جاتا ہے جیسے اندر ہی اندر خود کو سزا دے رہا ہو۔ایک دکھ بھری کتاب ہے وہ۔ جانے کیا دکھ ہے اسے؟ یا نی آپا بولیں۔ ایسے تمام لوگوں کے دکھ بہت ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ روزگار کی تلاش میں گنجان شہروں میں آباد یہ معصوم محدود آمد نی، بہت سی اولاد اور آئندہ خوش حالی کی ناامیدی کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ کیا ہم سب ہی اندیکھی دیواروں کے شہر میں بستے ہیں ممدو۔ آمدنی، رہن سہن، زبان اور مذہب کی دیواریں۔ کاروبار اور ملازمتوں کی اوپر نیچ تفریق ۔ میں نے کہا۔ اسکول میں بھی سمجھا ئی تھی یہ بات ہمیں۔ استاد نے ہم بچوں کو مالٹے دیئے کہ ان کے چھلکوں پر مارکر سے اپنا نام لکھو۔ جب مالٹے مرتبان میں رکھے گئے تو ہم سب کے لئے اپنے مالٹے کی شناخت آسان تھی۔ پھر مالٹے چھیلے گئے۔ اب مرتبان میں ہم میں سے کوئی بھی اپنا مالٹا نہ پہچان سکا۔ گویا ہم سب ایک دوسرے سے مختلف دکھتے ضرور ہیں لیکن اندر بسے ہمارے خواب بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دادا جی بولے۔ ہر انسان اپنے اور خاندان کے لئے خوش حالی، اچھےدوست، منصفانہ سلوک اور ترقی کے موا قع چاہتا ہے ۔ اسے توجہ اور قبولیت درکار ہوتی ہے۔ مناسب تعلیم اور زندگی بسر کرنے کی آسانیاں چاہئیے ہوتی ہیں۔ تو کوئی طریقہ سماجی نا انصافی ختم کرنے کا؟ میں نے پر جوش ہو کر کہا۔ یانی آپا بولیں۔معاشرے میں سماجی انصاف کے سفر کی ابتداء عوام اور ان کی نمائندہ حکومت کے کئے اس فیصلہ سے ہوتی ہے کہ صلاحیت کے مطابق روزگار اور تشدد اور خوف سے آزاد زندگی، معاشرے میں بسنے والے تمام لوگوں کا مساوی حق ہے۔ اس فیصلے سے بہت دور ہیں ہم ابھی . ہاں تم ذاتی حیثیت میں یہ فیصلہ فورا کر سکتے ہو کہ سماجی حیثیت، تعلیم، مذہب، ذات اور برادری سے بے نیاز سب لوگوں کی عزت کرو گے، ان کے ساتھ مساوی سلوک کروگے۔۔۔۔۔۔ جاری ہے