Home » Blog » Dabbaywalon Ka Sheher ڈبے والوں کا شہر، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستاسٹھواں انشا City of Dabbaywalas, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast serial, Episode 67
Dabbaywalon Ka Sheher ڈبے والوں کا شہر، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستاسٹھواں انشا City of Dabbaywalas, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast serial, Episode 67
Who represent Mumbai? Bollywood or Dabbawala who carries the lunch box and deliver freshly made food from customer’s home to offices? Have a glimpse of the city and decide
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
ڈبے والوں کا شہر، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، ستاسٹھواں انشا، شارق علی
٢٠٠٧ کی بات ہے پروفیسررسل اور میں ممبئی کے علاقے کولابا میں انڈیا گیٹ کے پاس تاج محل پیلس پہنچے تو استقبال یوں ہوا جیسے ہم کوئی مہاراجہ ہوں. محل نما عمارت کے ساتھ لگا اونچا رہائشی ٹاور . گویا دومختلف زمانوں کے طرز تعمیر ایک ساتھ . انکل پٹیل ممبئی کو یاد کر رہے تھے. بولے. اردلی نے سامان کمرے میں پہنچایا اور وہیں چیک ان کاروائی کامدارشیروانی اور بنارسی سا ڑھی پہنے اسٹاف نے ویلکم جوس پلاتے ہوۓ مکمل کی. سجاوٹ جیسے کوئی میوزیم ہو . راہداریوں تک میں نادر فرنیچر اور پینٹنگز. اس قیام کے اخراجات پروفیسرکے میزبانوں کے ذمے تھے . ہم کیونکہ وفد میں شامل تھے تو ہماری بھی موج. ریستوران میں کھڑکی کے قریب ناشتے کے لئے بیٹھے تو سمندر کا نظارہ جیسے کسی بحری جہاز سے. کچھ وقت پول کے کنارے پڑے شاہانہ جھولے پر ہلکورے لیتے اور یوگا پارلر میں بھی گزارا. وہی تاج نا جو 2008میں دہشت گردی کا نشانہ بنا تھا؟ میں نے کہا۔ بولے۔ بہت دکھ ہوا تھا ہمیں خبر سن کر۔ یوں سمجھو جیسے ممکنہ محبت میں دراڑ سی پڑ جائے ۔ دادا جی بولے۔ کہتے ہیں جمسیتجی ٹاٹا کو سفید فام واٹسن ہوٹل نے کمرہ دینے سے انکار کیا تو انہوں نے 1903 میں یہ ہوٹل تعمیر کیا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم میں اسے چھ سو بستروں کا ہسپتال بنا دیا گیا تھا۔ یانی آپا بولیں کبھی نہ سونے والا ممبئی غریب اور امیر سب کا شہر ہے۔ تاج پیلس اورمکیش امبانی کا ایک بلین کا گھر بھی یہیں اور دھاراوی کی جھگیوں میں اچھی زندگی گزارنے کے سسکتے خواب بھی۔ سلم کن آبادیوں کو کہتے ہیں دادا جی؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ زندگی کی وہ دردناک حقیقت ممدو جو ایسی جگہ سانسیں لیتی ہو جہاں انسانی رہائشی معیار کے مطابق زندگی ممکن ہی نہیں ہے۔ بقول جون ایلیا۔ جو گزاری نہ جا سکی ہم سے، ہم نے وہ زندگی گزاری ہے۔ انکل نے کہا۔ یہ سچ ہے کہ تاج ممبئی کی اصل تصویر نہیں۔ چلتے پھرتے عام لوگ اور سائیکلیں چلاتے ڈبے والے اس کے صحیح ترجمان ہیں۔ گھروں سے دفتروں تک کھانا پہچانے کا خود کار دیسی نظام ہیں یہ ڈبے والے۔ باعزت اور منظم محنت اور رزق حلال کی علامت .کوئی دو لاکھ کھانے کے ڈبے پانچ ہزار ڈبے والوں کےہاتھوں ادھر سے ادھر روز پہنچتے ہیں۔ پہلی ریل 1925 میں چلی تھی یہاں۔ بعض ٹرینیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اسی زمانے کی ہیں۔ دفتری وقت ہوا تو کھوے سے کھوا چھلنے کا مطلب سمجھ میں آیا۔ کراچی کی طرح جنت اور جہنم ایک ساتھ بستے ہیں ممبئی میں بھی ۔ ایک رخ تاج پیلس تو دوسرا جھونپڑ پٹیوں میں حاجت رفع کرنے کے ناکافی انتظامات۔ نتیجہ، جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر۔ میں نے موضوع بدلنا چاہا اور کہا۔ ہندی فلموں کی سبزی منڈی بولی ووڈ کا بھی تو ذکر کیجئے۔ انکل ہنس کر بولے پھر کسی اور وقت مولانا۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے