” The human spirit is one of ability, perseverance, and courage that no disability can steal away “
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
با صلاحیت ، سیج، انشے سیریل، چونتیسواں انشاء، شارق علی
آج تین دسمبر تھا اور سیج کانفرنس ہال کو معذوروں کے عالمی دن کی مناسبت سے سجایا گیا تھا۔ تقریب آگے بڑھی تو ابن بھائی کو تقریر کی دعوت دی گئی ۔ کہنے لگے۔ میں تیسری کلاس میں تھا جب میری دونوں ٹانگیں پولیو سے مفلوج ہوئیں۔ چھ بہن بھائی اور بھی تھے۔ باپ سرکاری محکمے میں کلرک۔ پہلے پہل ماں باپ کو لگا اور شاید مجھے بھی کہ میری زندگی بالکل بے کار ہے۔ ہوش سنبھالا تو بہتر زندگی گزارنے کی امنگ پیدا ہوئی۔ اسکول اور کام میں دل لگایا۔ شام میں آلو چھولے کا ٹھیلہ لگاتا اور دن میں تعلیم۔ تمام عمر ٹیوشن بھی پڑھائی۔ اب تو کالج کے اسٹوڈنٹ پڑھنے آتے ہیں۔ رسالوں میں مضامین اور اخباری کالم لکھتا ہوں۔ حال ہی میں معذوروں کے اسکول میں ہیڈ ٹیچر مقرر ہوا ہوں۔ وہ جو معذور ہیں ان سے کہنا ہے کہ یقین رکھئے ہر زندگی کے پیچھے کوئی منصوبہ اور مقصد ہوتا ہے۔ مقام، عمر، جنس اور معذوری سے بے نیاز. اپنے مقصد کو ڈھونڈ نکالئے۔ جو کر سکتے ہیں اس میں کمال حاصل کیجئے۔ نہ کر سکنے کی مایوسی کو بھلا دیجئے۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو معذور بچوں کے والدین سے بولے۔ اپنے بچوں کو کم تر نہ سمجھیے۔ والدین ، بڑے اداروں اور حکومت کو ہم پر سرمایہ کاری کرنی چاہیئے۔ یقین رکھئے ہم بہت منافع بخش ثابت ہوں گے۔ جلسہ ختم ہوا تو ٹی ہاؤس میں بیٹھک ہوئی. سوفی نے پوچھا۔ ہمارے معاشرے میں معذوروں کی بد حالی کا سبب؟ پروفیسر بولے۔ بنیادی بات یہ کہ ہم نام نہاد جمہوریہ ہیں۔ سب سے اہم ذمہ د اری کسی جمہوریہ کی یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرے۔ تاکہ وہ صلاحیت کے مطابق روزگار حاصل کر سکیں۔ جب عام لوگ ہی اس حق سے محروم ہوں تو معذوروں پر توجہ تو دور کی بات ہے پر جوش تقریریں اور حالیہ سرکاری اعلان کے معذوروں کی ملازمت کا کوٹہ دو سے بڑھا کر پانچ فیصد کر دیا گی ہے کوئی عملی صورت اختیار کرے تو بات بنے۔ ابن بھائی نے کہا۔ ایک اندازے کے مطابق ہماری تین سے سات فیصد آبادی معذوری کے زمرے میں آتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں روزگار، تعلیم کے حصول اور روز مرہ زندگی میں معذوروں کو کسی تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا نہیں ہوتا۔ بڑے ادارے خصوصی روزگار اور ضروری سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ جیسے لینے چھوڑنے کی سہولت اور ایسے کمپیوٹر سافٹ ویئر کا استعمال جو ان کی زندگی کو آسان بنائے۔ پروفیسربولے۔ یورپ کے تاریک دور میں معذوروں خصوصاً ذہنی معذوروں کو آسمانی اور شیطانی طاقتوں کے زیرِاثر سمجھا جاتا اور انھیں تعلیم سے محروم رکھا جاتا تھا۔ پھر سولہویں صدی میں اشاروں کی زبان میں بات چیت کے کچھ ثبوت ملتے ہیں۔سولہ سو اکہتر میں پیرس میں بہروں کی مدد کے لئے قومی ادارہ قائم ہوا جو شاید دنیا میں معذوروں کا پہلا فلاحی ادارہ تھا۔ انیسویں صدی میں فرانسیسی ماہرِتعلیم ایڈورڈ سیکوین نے معذور بچوں کی تعلیم کے اصول وضع کئے۔ ماریا مونٹیسوری اور دیگر تعلیمی ماہرین نے ان اصولوں کی پیروی کی۔ پھر امریکہ میں نابینائوں کے لئے پہلا اسکول قائم ہوا۔ لوئیس برائل نے چھو کر پڑھ سکنے کا نظام ایجاد کیا۔ ہم عام لوگ معذوروں کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟ میں نے دکھی دل سے پوچھا۔ ابن بھائی بولے۔ تم ہمیں اپنے رویوں، گفتگو اور طرزِ عمل میں برابری کا احساس دے سکتے ہو۔ ترس کھانے کے بجائے مدد، تعاون، حوصلے اور صلاحیت میں اضافے کی جدو جہد میں شریک بن سکتے ہو۔ ترقی اور خوش حالی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں مددگار ہو سکتے ہو۔ تم ہمیں سیکھنے کے جوش میں حیران کن حد تک آگے پائو گے۔ کبھی معذوری کو کم صلاحیت سمجھنے کی غلطی نہ کرنا۔ کیا اسٹیفن ہاکنگ کی صلاحیت کسی صحت مند آدمی سے کم ہے؟۔۔۔۔۔۔ جاری ہے