A brief account of a memorable day in Southbank London with Karachi Literature Festival (KLF), Oxford University Press (OUP) and Bloomsbury Pakistan, exploring literature and freedom of expression in Pakistan
آرزو کے دیے،کے ایل ایف لندن ادبی میلے کی جھلکیاں
ایمبینکمینٹ کے انڈرگراونڈ اسٹیشن سے باہر نکل کر پہلے تو بہت سی سیڑھیاں چڑھیں۔ پھر دریائے تھیمز کو عبور کرتے، فولادی رسیوں سے لٹکتے، کوئی دو فرلانگ لمبے پیدل پل پر چلنے لگا تو بیس مئی دو ہزار سترہ کی خوشگوار صبح کی نکھری ہوئی دھوپ اور نیلے آسمان میں تیرتے بادل کے ٹکڑے بھی میرے ساتھ چلے۔ نیچے دریا کا سینہ چیرتی چھوٹی بڑی کشتیاں تھیں اور پس منظر میں لندن کی قدیم اور جدید عمارتوں کا حسین امتزاج اور دریا پھلانگتے دلکش پل۔ میری منزل ساوتھ بینک تھی۔ اس علاقے کوجدید لندن کا قدیم قصہ خوانی سمجھیے. آج یہاں رائل فیسٹیول ہال میں دور دراز سے آئے مسافراور لندن میں بسے پاکستانیوں کو اپنے ملک کی محبوب گذشتہ کی طرح پہلو بچاتی تاریخ اور ثقافت کا ستر سالہ جشن منانا تھا۔ زرد پتوں کے بن پر چار ہزار میل کی دوری سے محبت بھری نگاہ ڈالنی تھی۔ فکری اور تخلیقی اظہاریوں اور دل سوز سماعتوں کے وسیلے سے ۔ اس ادبی میلے کے نمایاں میزبان تھے کراچی لٹریری فیسٹیول (کے ایل ایف) کے آصف فرخی، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (او یو پی) کی امینہ سید بلومسبری پاکستان کے نادر چیمہ اور ان کے دیگر ساتھی۔ دو ہزار دس میں کراچی سے شروع ہوا (کے ایل ایف) کا سفر آج لندن میں ایک نئی ادبی روایت کا آغاز کر رہا تھا۔ میرے لئے یہ دن بچھڑے دوستوں اور ان کے ساتھ گزارے طالب علمی کے حسین دنوں کو یاد کرنے کا خوش کن موقع بھی تھا۔ میں اتنا ہی پر مسرت تھا جتنا کرتبوں، کھلونوں اور کھانوں سے سجے میلے کی سمت بڑھتا کوئی بچپن۔ ۱۹۵۱ میں قائم ہوا ساوتھ بینک سینٹر برطانیہ میں ادب، فنون لطیفہ اور ثقافتی دلچسپیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ تھیٹر، رقص، موسیقی، ادب اور مذاکرے۔ سالانہ پانچ ہزار تقریبات اور تقریباً ساٹھ لاکھ لوگوں کی ذہنی دلچسپی کو قائم رکھنے کے لئے یہاں ہر دم کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ (کے ایل ایف) اس بار الکیمی کے اس گیارہ روزہ میلے کا حصہ بنا جس کا مقصد جنوبی اشیاء اور برطانیہ کے مابین ثقافتی رشتوں کا جشن منانا تھا۔ (او یو پی) کی روایت اور فلسفہ عالمی فروغ علم اور تحقیق میں درس و تدریس اور اشاعت کے ذریعے سے حصہ بٹانا ہے۔ ۱۴۷۸ میں پہلی کتاب چھاپنے والا آکسفورڈ پریس آج ۵۳ ملکوں میں ۹۰ سے زیادہ زبانوں میں کتابیں چھاپنے میں مصروف ہے۔ میں ہال میں داخل ہوا تو آصف فرخی، پروفیسر کامران اصدر علی، حارث خلیق اور ڈاو کے دوستوں سے ملاقات ہوئی. دل کھل اٹھا۔ افتتاحی تقریب میں محمد حنیف نے اپنے مخصوص شگفتہ انداز میں آنکھیں نم کرتی باتیں کیں اور تقسیم کے ان اندھے کنووں کو یاد کیا جو ہمارے بزرگوں کی عزت و ناموس کا آخری سہارا تھے۔ میں سوچنے لگا کے اقلیتوں، عورتوں اور عام انسانی حقوق کی پامالی کے یہ اندھے کنویں تو آج بھی ہمارے صاحب اقتدار کی دسترس اور استعمال میں ہیں۔ پورے دن پاکستانی ادب، تاریخ اور ثقافت کے مختلف پہلو زیر بحث ائے۔ مذاکرے، غیر رسمی خیال آرائی، سترنگی مشاعرہ اور خالد انعم اور خماریاں کی ولولہ انگیز موسیقی نے اپنا رنگ خوب جمایا ۔ آصف فرخی کی فکر انگیز پڑھی لکھی باتیں اور تجربہ کار نظامت، حارث خلیق کا زور خطابت اور ایلیپو کو یاد کرتی دکھ بھری نظم، باصر کاظمی کی خوبصورت غزل، عشرت آفرین کی منفرد نظم۔ خون کے آنسو رلاتی پشتو، پوٹوہاری اور سندھی نظمیں، پروفیسر کامران اصدر علی کا علمی، تحقیقی اور کراچی کی محبت سے سرشار اظہار خیال۔ تقسیم کا دکھ لئے سرحد کے دونوں پار لکھی گئی کہانیوں کا ملال۔ منٹو کی کاٹ دار تحریروں کی پڑھت۔ کوفی پیتے ہوئے ناول نگار عامر حسین اور کاملہ شمسی کی دور سے ایک جھلک اور زہرہ نگاہ کا پروگرام میں موجود ہونا لیکن کہیں نظر نہ آنا ۔ برسوں بعد ملے دوستوں اور دور گم گشتہ کی حسین یادوں کی سرخوشی، فلم کی جھلکیوں کی طرح ذہن سے گزرتیں ہیں. اس یادگار دن کے اختتام پر جب میں اسی پیدل پل پر سے دوبارہ گزرا تو شام ڈھل چکی تھی اور شہر کی روشنیاں دریا کے پانیوں میں دئیے بن کر جھلملا رہی تھیں. زبانوں ، بولیوں ، تاریخی اور ثقافتی ورثے سے مالامال ملک پاکستان میں آنیوالی اس فضا ، اس موسم بہار کی آرزو کے دیۓ جس میں لکھنا، پڑھنا ، سننا ، اختلاف رائے کا احترام کرنا، دلیل سے قائل ہو جانا یا کر لینا اور سچا ادب تخلیق کرنا ممکن ہو سکے گا . دریا آزادی اظہار کی آرزو کے دیوں سے جگمگا رہا تھا