Find an intimate glimpse of the most rapidly growing city of the world in this story
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
عبدل کا ڈھاکہ ، دادا اور دلدادہ، انشے سیریل، چونواں انشا، شارق علی
عطا ترک روڈ اور اٹھارویں منزل پر واقع بخارہ ریسٹورینٹ کی میز پر بیٹھ گئے تو وفد کے ساتھیوں نے اچانک کیک نکالا، موم بتیاں بجھیں، کیک کٹا، آئی فون سے جڑے اسپیکر کی موسیقی میں میرے لئے ہیپی برتھ ڈے گایا گیا۔ انکل پٹیل ڈھاکا کو یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ سرپرائز پارٹی کے بعد نیچے اترے تو گلشن گیسٹ ہاؤس جانے کے لئے رکشے لئے گئے ۔ عبدل اور اس کے سائیکل رکشا سے اسی دن دوستی ہوئی۔ پان سے رنگے دانت، چہرے اور ہاتھ پیروں کی ہڈیاں نمایاں، ڈھیلا کرتا، ملگجی دھوتی، سلائی شدہ چپل، ادھیڑ عمرماتھے پر رزق حلال کا نور۔ اردو واجبی سی ۔ تھوڑا بول سکتا سوب۔ جیادہ نہیں۔ ہر صبح گیسٹ ہاؤس سے باہر نکلتے تو گیٹ پر موجود ۔بس رکشا قریب لا تا اوردانت نکال دیتا۔ منزل دور ہوتی تو ٹیکسی ورنہ عبدل زندہ باد۔ ڈھا کہ کے دونوں رخ دیکھے۔ میزبانوں کودکھایا ہواپانچ ستاروں والا ڈھا کہ بھی اور غریبی کے صبح و شام والاعبدل کا ڈھاکہ بھی۔ آبادی سے شرابور شہر، بے قابو ٹریفک، ہارنوں، رکشہ گھنٹیوں اور زبانی چیخ پکار کا شور۔ ہر سو گز پر چائے کی چھوٹی بڑی دکان۔ میٹھا اور دودھ بہت زیادہ۔ سائیکل رکشون کے ہجوم جن کے پچھلے تختوں پر مصوری کے شاہکار بنے ہوئے، فلم اسٹار، مکہ مدینہ، دیوی دیوتا، درخت، پہاڑ، جانور، سب موجود۔ کوئی بازار دیکھا آپ نے؟ یانی آپا بولیں۔ کہنے لگے، جدید شاپنگ سینٹر توویسے ہی جیسے سب بڑے شہروں میں۔ ایک دن عبدل کے ساتھ تین سوسالہ شنکریہ بازار گئے۔ ہندو محلہ۔ چھوٹی تنگ گلیوں میں پتنگ، زیورات، قبروں کے کتبے اورہندو دیوتاوں کی تصویریں بناتے کاریگر۔۔ کشتی میں بیٹھنا ہوا آپ کا؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ ہاں دو ایک بار، سطح سمندر سے نیچے ہونے کے سبب شہر بھر میں جابجا مردار پانی یا دریا سے جڑی جھیلیں دکھائی دیتی ہیں۔ اور مسافر کشتیاں ادھر ادھر جاتی ہوئی۔ کناروں کے ساتھ بانسوں پر کھڑی جھونپڑ پٹیوں کے سلسلے ہیں دور تک۔ اداسی اور بے بسی کا دل سوز منظر. بڑی گنگا دریا پرانے ڈھا کہ کے بیچ سے گزرتا تھا کبھی۔ اب تو ایک جوہڑ سمجھو. غریبی امیری کنارے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایک طرف کمارتولی میں احسن مونجل کی محل نما عمارت ہے جو مغل زمانے میں نواب کے خاندان کا گھر تھی اور اب میوزیم۔ اس کے شاندار کمروں میں اکثر ثقافتی میلے سجتے ہیں۔ دوسری جانب ساتھ لگی گنجان آبادیوں میں محنت کشوں کے شب و روز جو دریائ کیچڑ میں اپنا رزق، اپنا مقدر تلاش کرتے ہیں۔ ہرے بھرے کھیت کھلیانوں سے آئے ہوے دیہاتی جو دنیا کے سب سے تیزی سے پھیلتے شہر میں دو وقت کی روٹی سے کبھی جیتتے ہیں کبھی ہارتے۔ اور دھا ن منڈی؟ دادا جی نے پوچھا۔ بولے۔ خوشحال رہائشی علاقہ ہے دھان منڈی، یہیں شیخ مجیب کی قیام گاہ تھی اور یہیں انہیں اور بیشتر خاندان والوں کوانیس سو پچہترمیں قتل کیا گیا۔ آبادی کے بیچ میں ایک جھیل ہے اور ساتھ ٹہلنے کے لئے بنا ہواخوبصورت فٹپاتھ . بنگال ٹائگر دکھائی دیا کبھی؟ میں نےاچانک سے پوچھا۔ بولے۔ کیوں نہیں۔ عبدل کے رکشے کے پچھلے تختے پر منہ کھولے دھاڑ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے