Population explosion is the greatest threat to Pakistan`s future. Only a small number of married Pakistani women use any form of birth control. This is a disaster in the making
I am Azm, a student at Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
آبادی کی تباہی، سیج انشے سیریل، چالیسواں انشا، شارق علی
ذہانت اور دلکشی کا امتزاج ہیں ڈاکٹرارما۔ سوچ میں گم آنکھیں. انداز اور گفتار میں اعتماد کا حسن ۔ سماجیات کے شعبے میں عالمی شہرت یافتہ اورتعلق کراچی سے۔ پروفیسر گل کی اسکول کے زمانے کی دوست ہیں ۔ لیکچر میں تو ابھی دیر تھی لیکن طلبا اتنے بے چین تھے کے غیر رسمی گفتگو کا آغاز بر آمدے ہی میں ہو گیا۔ بولیں. دھنک کے رنگوں جیسا شہر تھا کراچی۔ مختلف زبانیں، لہجے، لباس، ثقافت اور طرح طرح کے خواب لئے لوگ دور دراز سے آ کر آباد ہوئے تھے یہاں۔ دو کروڑ ستر لاکھ آبادی کے نو آزاد ملک پاکستان کا دارالحکومت۔ دیکھتے ہی دیکھتے بلاروک ٹوک بڑھتی آبادی، وسائل کی کمی اور مسائل کے انبار نے اس دل آویز رنگا رنگی کو نفرت، تعصب اور تشدد کے پاگل پن کی طرف دھکیل دیا۔ پروفیسر گل بولے۔ میرے بچپن میں شہر کی سڑکیں کہانیوں کی کتاب تھیں۔ جنہیں میں چلتے پھرتے پڑھ سکتا تھا۔ لطف اندوز حیرتوں میں گم ہو سکتا تھا۔ آج وہی سڑکیں ہجوم اور ٹریفک سے بے حال ہیں۔ شور اتنا کے کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ گندگی کے ڈھیر، کھلے گٹر سے ابلتی غلاظت ، صاف پانی کی قلت اور لوڈ شیڈنگ. رہائشی سہولتوں کے اعتبار سے دنیا کے ایک سو چالیس شہروں میں سے ایک سو سینتیسویں نمبر پر ہے یہ اب. سوفی نے پوچھا ۔ کیوں ہوا ایسا؟ ڈاکٹر ارما بولیں. ذمے دار عوامل تو بہت سے ہیں . مالی بد دیانتی، نا اہل حکمرانی، سیاسی اور مذہبی شدت پسندی، تعلیمی پسماندگی وغیرہ . لیکن اس بگڑتی صورتِ حال کی سب سے بڑی وجہ ہے آبادی میں بلاروک ٹوک اضافہ۔ سچ پوچھو تو کمزور جمہوریت کا سبب غیر ملکی سازشیں نہیں وہ ہجوم ہے جو ووٹ کی اہمیت اور استعمال سے واقف نہیں ۔ ٹی وی دانشور بڑھتی آبادی کے مسئلے پر بات کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہ طاقتور مذہبی سوچ سے خوفزدہ ہیں۔ وہ جو کثرتِ اولاد اور رزق کی فراہمی کو خدا کی ذمہ داری بتا کر سامنے کی حقیقتوں کو جھٹلاتے ہیں۔ وہ شدت پسند دھرنا ہجوم جس نے اجتمائی عقل کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ پروفیسر گل بولے ۔ہماری معیشت اور علاقائی سالمیت کو سب سے بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی آبادی سے ہے۔ اسی شرح پیداوار سے پینتیس برس میں آبادی چالیس کروڑ یعنی دو گنا ہو جائے گی۔ غذایء پیداوار، رہائش، صحت اور تعلیمی سہولتوں میں اضافہ کی رفتار سب کے سامنے ہے۔ دگنی آبادی کا مطلب ہے آدھا میسر صاف پانی۔ فضائی کثافت، سمندری آلودگی، گندگی، غربت، جھونپر پٹیوں، ٹریفک، بے روزگاری، غصے اور مایوسی میں مزید اضافہ. خوش حالی، اسکول اور ہسپتال کم، مدرسے اور تعویز گنڈوں سے علاج زیادہ۔ پھر کیا کیا جائے؟ میں نے پوچھا۔ ڈاکٹر ارما بولیں۔ بات عجیب ہے لیکن تحقیق شدہ۔ انسانی پیدائش کے عمل کو راز رکھنے کے بجانے اگر اسے بنیادی تعلیم کا حصہ بنا دیا جائے تو آبادی میں واضح کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے کیوں کہ پیدائش پر قابو پانے کے طریقے ایسی تعلیم کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ جب تک اس اہم موضوع پر میڈیا، تعلیمی اداروں اور اور عوامی مکالمے کے دروازے بند رہیں گے، آبادی پر قابو پانا ممکن نہیں۔ عوام خاص طور پر عورتوں کو پیدائش کے حفاظتی طریقوں سے آگاہی دینا بے حد اہم ہے ۔ مشرقی شرم و حیاء کی خود فریبی سے معاشرے کو نکال کر ان معاملات میں عورتوں کی رائے کو اہمیت دی جائے تو ہم اس تباہی سے بچ سکتے ہیں۔ پروفیسر گل بولے۔ تکلیف دہ سچ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی شرح پیدائش بنگلہ دیش، انڈیا، سری لنکا بلکہ اس خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ فیصلہ اس ملک میں رہنے والوں کے ہاتھ میں ہے۔ ہم انسانی ترقیاتی انڈیکس میں ایک سو سینتالیسواں نمبر پر ہیں۔ ہماری تیس فیصد آبادی غریبی لائن سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔ ہم فیصلہ کن موڑ پرہیں۔ کیا ہمیں پولیو کے قطرے پلانے والوں کو قتل کرنے والی اوراجتماعی خودکشی کی حمایتی مذہبی سوچ کا ساتھ دینا ہے یا انسانی عقل و فہم پر اعتماد کر کے تعلیم اور فیملی پلاننگ کے انقلاب کا وہ راستہ اپنانا ہے جو ترقی اور خوشحالی کی سمت جاتا ہے۔ بنگلہ دیش اور ایران بھی تو مسلم ممالک ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے فیملی پلاننگ کے کامیاب پروگرام چلائے ہیں۔۔..جاری ھے