بوسٹن ٹی پارٹی، اٹھارہواں انشا ، امریگو کہانی، انشے سیریل ، ویلیوورسٹی، شارق علی
ایرپورٹ کی لابی میں اوبر ایپ استعمال کر کے ٹیکسی منگوای گئی ۔ آمد کا مقام کنفرم کیا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک بڑی سی مرسڈیز وین طے شدہ مقام پر ہمارے سامنے آ کر رکی۔ اسے ایک انتہائی صحتمند مقامی خاتون جو لیٹینوز کہلاتے ہیں، ڈرائیو کر رہی تھیں۔ ایک کان میں ایئر فون اور سامنے مڑی کمان سے اٹکا مائیک۔ سر کی ہلکی سی رضامندانہ جنبش سے انہوں نے ہمیں ٹیکسی میں بیٹھنے کی اجازت دی۔ رسمی گفتگو کے لیے ہمارے آرزومندانہ جوش و خروش کو نظر انداز کر کے انہوں نے کسی بھی قسم کی علیک سلیک کو غیر ضروری جانا۔ بیک پیک کی وجہ سے سامان لادنے کی جھنجھٹ سے آذادی تھی۔ ہم سب پیچھے بیٹھ چکے تو انہوں نے گاڑی اورلینڈو کی کشادہ اور جدید سڑکوں پر مہارت سے چلانا شروع کر دی۔ اورلینڈو کی یاترا کا انتخاب باہمی رضا مندی سے بچوں نے کیا تھا تاکہ مشہور زمانہ یونیورسل اسٹوڈیو دیکھا جاسکے۔ جانے کیوں مجھے خیال آیا کہ غالبا بوسٹن کی جدید سڑکیں بھی اورلینڈو سے زیادہ مختلف نہ ہوں گی۔ بوسٹن تاریخی لحاظ سے امریکہ کے اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے ۔ وہاں کے گلی کوچے امریکی آزادی کی بہت سی کہانیوں کے گواہ ہیں۔ سرکاری طور پر یہ شہر سولہ سو تیس میں انگریز پیوریٹنز نے قائم کیا تھا جو مذہبی آزادی کے لیے اس نئی سرزمین پر پہونچے تھے، بوسٹن کو امریکی انقلاب کی جائے پیدائش بھی کہا جاتا ہے۔ امریکی تعلیمی انقلاب کی ابتدا میں اس کا اہم حصّہ ہے ۔ سولہ سو پینتیس میں پہلا امریکی پبلک سیکنڈری گرامر اسکول یہاں قائم ہوا۔ سولہ سے چھتیس میں ہارورڈ میں پہلی امریکی یونیورسٹی قایم ہوی جو آج بھی دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔ ہماری ٹیکسی ایرپورٹ سے شہر جانیوالی بڑی شاہراہ پر گامزن ہو گئی تو لیٹینوز خاتون ڈرائیور نے مائیک پر گفتگو کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ دوسری جانب یا تو بچے تھے یا شاید فرمانبردار اور مظلوم شوہر۔ لاطینی ہدایات تو ہماری سمجھ میں نہیں آئیں لیکن تحکمانہ لہجہ اور انداز مکمل کہانی صاف کہے دیتا تھا۔ ان کے انداز و اطوار میں ورکنگ فرام ہوم جیسا اطمینان تھا۔ سڑک پر ٹیکسی ویسی ہی مہارت سے رواں دواں تھی جیسا کہ غالباً ان کی ہدایات کے مطابق گھر کے کچن میں چولہے پر چڑھا پکتا ہوا پاسٹا اور سوپ ۔ بوسٹن شہر امریکی انقلاب کا اہم کردار ہے کیونکہ یہ ان دنوں میساچوسٹس کا دارالحکومت تھا۔ نوآبادیاتی حکومت کا مرکز اور کالونی کی تجارت کا گڑھ بھی. سترہ سو تہتر کو بوسٹن ٹی پارٹی کے نام سے میساچوسٹس میں ہونیوالے سیاسی احتجاج کا اہتمام کالونیوں کے ایک نمائندہ باغی گروپ نے کیا تھا، جو چائے پر برطانوی ٹیکس اور کالونیوں میں چائے کی فروخت کے لیے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو دی جانے والی اجارہ داری کے مخالف تھے۔ سولہ دسمبر کی شام یہ احتجاجی گروپ، موہاک انڈینز کا لباس پہنے، بوسٹن ہاربر پر لنگر انداز تین برطانوی جہازوں پر چڑھ کیا اور چائے کے ساڑھے تین سو کریٹ پانی میں پھینک دیے۔ پھینکی جانے والی چائے کی قیمت تقریبا دس ہزار پونڈ بنتی تھی جو آج کہتقریبا ایک ملین ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ بوسٹن ٹی پارٹی امریکی انقلاب کا ایک اہم واقعہ تھا۔ یہ پہلی بار برطانوی اتھارٹی کے لیے براہ راست چیلنج تھا اور امریکی جنگ آزادی کا آغاز ۔۔۔۔جاری ہے