The present-day political and geographic divide of the world based on Nationalism is unsustainable. In order to face the emerging technological, climate and human rights challenges, we need a new more robust and fair global system. دریا کا شفاف پانی دھیرے دھیرے بہ رہا تھا۔ کنارے کی کگر کے ساتھ چلتا سبز گھاس کا دو گز چوڑا تروتازہ ٹکڑا بچھا تھا۔ جیسے کسی ریشمی ساڑھی کے کنارے پر لگا سبز بورڈر۔ پھر اس مٹیالی پیدل رہگزر کی پٹی تھی جس پر ھم گفتگو میں مصروف دھیرے دھیرے چل رہے تھے۔ بہت قرینے سے قطار میں لگے توانا درختوں کا سلسلہ قدم بقدم ہمارے ساتھ تھا ۔ پس منظر میں کیمبرج کی عمارتیں تھیں۔ تاریخی کالجوں کے عقب میں ہونے کی وجہ سے یہ سارا علاقہ دی بیکس کے نام سے جانا جاتا ہے. درختوں کے پیچھے دور تک پھیلی سرسبز چراہ گاہ تھی جس میں اعلیٰ نسل کے دو گھوڑے گھاس چر رہے تھے۔ . چلتے چلتے زن نے پوچھا. گلوبلائزیشن سے کیا مراد ہے ؟ . پروف بولے. جب کسی ایک خطے کا معاشی یا ثقافتی عمل بیشتر دنیا میں اپنا لیا جاتا ہے تجارت ، ٹیکنالوجی سیاست یا ثقافتی طور پر کوئی بھی عملی قدم. ، تو دنیا گلوبلائزیشن کی سمت ایک قدم آگے بڑھتی ہے . ہم مشترکہ عالمی ثقافت کی جانب تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ دنیا کے بیشتر نوجوان ٹی شرٹ اور جینز پہنتے ہیں۔ انگریزی زبان ، ہالی ووڈ کی فلمیں ، پیزا، پاستا اور کوکا کولا پسند کرتے ہیں. یو ٹیوب پر وڈیو دیکھتے اور فیس بک اکاؤنٹ رکھتے ہیں. اس بات پر بحث ممکن ہے کہ یہ کوئی اچھی بات ہے یا بری۔ وہ کیسے ؟ میں نے پوچھا. کہنے لگے . دنیا کے بعض عقلمند دانشور مثال کے طور پر نیوم چومسکی غریب ممالک کی معیشت اور مفادات کے لئے گلوبلائزیشن کو نقصان دہ سمجھتے ہیں ..ان کے خیال میں ایسا ہونا امیر لوگوں کو مزید امیر اور غریب کو غریب تر بنا دے گا. ایسے دانشوروں کی رائے میں ورلڈ بینک اور آی ایم ایف جیسے اداروں کے قیام نے غریب ممالک کے لیے خوشحال ہونا بے حد مشکل بنا دیا ہے. میری آرزو تو یہ ہے کہ اگر ہم انسانی مساوات کے اصول کو سچے دل سے قبول کر لیں اور اپنا اجتماعی مفاد ایک سمجھنے لگیں تو ھم عالمی سیاسی پالیسی اور اداروں کے مشترکہ مفاد کے تناظر میں دنیا کو دیکھ سکنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں. پر خلوص اور منصفانہ قوانین کا سوچا سمجھا قدم با قدم اطلاق اس نظام کو کامیاب کرسکتا ہے. ماضی میں اقوام متحدہ کا قیام اسی خواب کی جانب ایک قدم تھا. بدقسمتی سے طاقتور ملکوں کے مفادات اور کوتاہ نظری اسے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام نہیں دینے دیتے. تجارتی پابندیاں عائد کر کے سیاسی مخالف ملکوں کو نقصان پوھنچایا جاتا ہے . گفتگو جاری تھی کے ساتھ چلتے دریا میں پتلی سی لکڑی کی کشتی جس میں تین نوجوان سوار تھےہمارے پاس سے گزری۔ سنہری بالوں والے ٹی شرٹ اور شورٹس پہنے لڑکا اور لڑکی ساتھ بیٹھے تھے اور ان کا دوست پیچھے کھڑا لمبے سے بانس کو دریا کی تہ سے ٹکا کر کشتی آگے دھکیل رہا تھا۔ جیک نے پروف کو بتایا.کے اٹھارویں صدی سے یہ سارا سرسبز علاقہ کیمبرج کے تاریخی کالجوں کی جائیداد اور ملکیت شمار ہوتا ہے۔ پرانے زمانے میں اسے پھل دار درختوں کی کاشت اور چراگاہ کے طور پر استعمال کیا جاتاتھا ۔ اب یہ ان کالجوں کے عقب میں واقع مشہور سیرگاہ ھے. بعض لوگ تو اسے انگلستان کی دس خوبصورت سیر گاہوں میں سے ایک شمار کرتے ہیں. پھر زن نے ایک اہ بھری اور کہا. تو کیا دنیا کو ایک نیے عالمی نظام کی ضرورت ہے؟ . پروف بولے بالکل .قومیت کی بنیاد پر قائم دنیا کی موجودہ جغرافیائی تقسیم عالمی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے. آبادی میں اضافہ ، ماحولیاتی تبدیلی مثلا سمندروں کی تیزابیت اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافے کا تدارک ، عالمی وسائل کی منصفانہ تقسیم یا کورونا کی وبا جیسے عالمی مسائل اجتماعی حکمت عملی کا مطالبہ کرتے ہیں . پوری دنیا کو مشترکہ پالیسی بنانے اور ایک ساتھ موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے. ایک نیے عالمی معاشی، اور قانونی نظام کی سمت پیش رفت اب ضروری ہے….. جاری ہے
I have been surfing online more than three hours today, yet I never
found any interesting article like yours. It’s pretty worth enough for me.
Personally, if all site owners and bloggers made good
content as you did, the internet will be much more useful than ever before.