Bangladesh, a lush green poor country with the warmth of hospitality. ہوٹل کی لابی میں دوستوں سے ملاقات کے بعد کمرے میں پہنچا تو خاصا تھک چکا تھا۔ ایک طویل شاور سے تھکن میں کچھ کمی محسوس ہوی اور بھوک کھل کر لگنے لگی۔ نیچے ڈائننگ ہال تک جانے کی ہمت نہ تھی۔ روم سروس سے کھانا کمرے ہی میں منگوایا اور ٹی وی پر انگریزی میں مقامی خبریں سنتے ہوے کھانا کھایا۔ مقامی خبریں کسی بھی ملک کے بہت سے راز کھول دیتی ہیں. پھر بنگلہ دیش سے تو پرانی شناسائی بھی نکلتی ہے . بہت سی دلچسپ باتوں کا پتہ چلا. سطح سمندر سے نیچے واقع یہ ملک ہے جہاں اکثر سیلاب آتے رہتے ہیں بے حد سرسبز و شاداب ہے ۔ اس کے گھنے جنگلوں میں آج بھی چیتے اور بنگال ٹائیگر گھومتے پھرتے ہیں. یوں تو پاکستان اور انڈیا میں بھی بہت سارے لوگ بیرون ملک کام کرتے ہیں لیکن شاید بنگلہ دیش اس معاملے میں تمام پڑوسی ممالک سے آگے ہے۔ ڈھاکہ دنیا کا گنجان آباد ترین شہر ہے۔ ایک گلی میں کسی گاؤں کے برابر لوگ زندگی گزارتے ہیں۔ رہایشی سہولیات کے لحاظ سے شاید دنیا کے نچلے ترین شہروں میں سے ایک۔ غربت اپنے عروج پر ہیے۔ لیکن حالیہ چند برسوں میں اس ملک نے قابل تعریف ترقی کی ہے اور اب غربت میں بہت تیزی سے کمی آ رہی ہے. خبریں اور کھانا ختم ہوا تو سامان میں سے ساتھ لای کتاب نکالی اور کتاب پڑھتے پڑھتے سو گیا۔ صبح آٹھ بجے کے قریب آنکھ کھلی ۔ معمول سے فارغ ہو کر سامان سمیٹا اور سفر کے لیے تیار بیگ کمرے میں چھوڑ کر ڈاءیننگ ہال میں پہونچا تو یاروں کی رونق عروج پر تھی. ناشتے کی میز پر ٹام ، رچرڈ، روتھ پہلے سے موجود تھے۔ میں اور اپوکو تقریبآ ایک ساتھ ہی ہال میں داخل ہوے اور ناشتے اور گفتگو میں شامل ہو گئے۔ ناشتے کے لیے دو چوائسز تھیں یا تو انگلش بریکفاسٹ لیا جاے یا بنگلہ ٹریڈیشنل۔ نہ صرف میں نے بلکہ سب ہی نے بنگلہ ٹریڈیشنل کو کھمبا ووٹ ڈالا۔ ایک پراٹھا اور خوب پکی ہوی آلو مٹر پالک کی بھجیا جسے وہاں سبجی پکارا جا رہا تھا۔ ساتھ ہی چھوٹی سی کٹوری میں دال۔ فرای انڈہ، توس مکھن، چاے اور تھوڑا سا میٹھا دہی اس کے علاوہ. ناشتے کے فوراً بعد ساڑھے نو بجے ہمیں ہوٹل سے چیک آؤٹ کرنا تھا۔ پھر سلہٹ کے قریب واقع چاے کے باغات کے لیے مشہور قصبے سری مونگول کے لیے بای روڈ روانہ ہونا تھا۔ جہاں اس برنس ریجنل کونفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ناشتے کے دوران ہی ایسڈ سرواءیورز فاؤنڈیشن کی ڈایریکٹر منیرہ رحمان اور سمایل ٹرین کی نمایندگی کرتے ہوے ایک مقامی پلاسٹک سرجن ایوب علی آ گئے۔ رسمی دعا سلام ہوئی اور ناشتہ جاری رکھا گیا. یہ دونوں اورگنائزیشن انٹربرنس کے ساتھ اس کانفرنس کے انعقاد میں برابر سے شریک تھیں. تمام مقامی انتظامات منیرہ رحمان اور ان کی ٹیم کے زمے تھے جو تین روز پہلے ہی سے سری مونگول میں مقیم تھی. ناشتے کے دوران منیرہ نے ہمیں تفصیلی بریفنگ دی۔ مقامی انتظامات کے ساتھ ساتھ ڈیلیگیٹس کے بارے میں بھی بتایا. کون کون اور کس کس ملک سے اب تک بانگلہ دیش پہونچ چکا ہے۔ میں نے پاکستان سے لیاقت میڈیکل کالج کے برنس کے اسسٹنٹ پروفیسر کو انٹربرنس کی فنڈنگ پر بلوایا تھا۔ معلوم ہوا کے ڈاکٹر صاحب اپنی بیگم سمیت تشریف لائے ہیں۔ امریکہ سے مائیکل پیک اور کینیڈا کے بو علی کے علاوہ افغانستان کے صوبے قندھار سے برنس سرجن ڈاکٹر غفار اور ان کے چیف ٹیکنیشن بھی سری مونگول پہونچ چکے تھے…. جاری ہےSHOW LESS
Home » Blog » بنگلہ ٹریڈیشنل،چوتھا انشا، ناریل کا پانی، رپورتاژ Bangla Traditional, Epi 4, A Travelogue Repertoire
بنگلہ ٹریڈیشنل،چوتھا انشا، ناریل کا پانی، رپورتاژ Bangla Traditional, Epi 4, A Travelogue Repertoire
- by Ramsha Ali