Skip to content
Home » Blog » کہانی کا فراڈ ، ابتدا سے آج کل ، انشے سیریل ، بارہواں انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹی. Fictional fraud, GENESIS, PODCAST SERIAL EPISODE 12.

کہانی کا فراڈ ، ابتدا سے آج کل ، انشے سیریل ، بارہواں انشا ، شارق علی ، ویلیوورسٹی. Fictional fraud, GENESIS, PODCAST SERIAL EPISODE 12.

To organise a large group of people to cooperate, we need a believable narrative. It does not matter whether it is true or false. Fictional fraud has been used in human history repeatedly and is still in use.

مصروف سڑک کے کنارے فٹ پاتھ تھا اور سر سبز باغ سے اسے جدا کرتا تازہ پینٹ کیا ہوا لوہے کا سیاہ جنگلا بھی . یہ سلسلہ کئی فرلانگ تک چلتا چلا گیا تھا . ایک حصے میں سایکل سٹینڈ کا انتظام موجود تھا.  ہم  نے سائیکلیں سٹینڈ پر کھڑی کر کے تالے لگاے.  پھر دھیمے  قدموں سے باتیں کرتے ہوے سبزہ زار کے بیچ بنی پیدل رہگزر پر چلنے لگے۔ زن  نے پروف سے پوچھا . ابتدائی سماج کے خد و خال کیونکر ابھرے ؟ کہنے لگے .  پہلے زرعی انقلاب کے نتیجے میں غذا کی فراوانی نے انسانی تہذیب کا آغاز کیا جس نے دور رس نتائج مرتب کیے. اگرچہ انفرادی سطح پر بیشتر لوگوں کے لئے زندگی زیادہ مشکل ہو گئی. ایک دفعہ بستیاں بسا لینے کے بعد وہ آسائش اور سہولت کے قیدی بن کر رہ گئے.  جب کہ جنگل کی خانہ بدوش زندگی میں وہ نسبتاً زیادہ آزاد تھے. شاید زیادہ خوش بھی . لیکن بلا شبہ انسانی زندگی اب زیادہ محفوظ تھی.  آبادی میں اضافہ ہوا تو سیاسی تنظیم ایک ضرورت بن گئی.  سماج کے دھڑیے واضح ہونے لگے اور ان میں اختیارات کی تقسیم ابھر کر سامنے آئی. زیادہ بڑے انسانی جتھوں کا آپس میں تعاون ضروری ہو گیا تاکہ بڑھتی ہوئی اجتماعی سماجی ضروریات کو پورا کیا جا سکے. گفتگو میں کچھ وقفہ آیا تو میں کن انکھیوں سے زن اور اس روشن دن اور ارد گرد کے حسین منظر کا موازنہ کرنے لگا . لیکن یوں کے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو .  ہمارے دائیں طرف اونچے درختوں کا سلسلہ تھا اور ان کے پیچھے دریائے کیم جو کنگز کالج کی عمارت کے ساتھ بہ رہا تھا۔ بلند درختوں کی موجودگی کے باوجود ہم کنگز کالج کے کتھیڈرل کے عالمی شہرت یافتہ دروازے کو دیکھ سکتے تھے ۔ اسے کیمبرج شہر کی عمارتی علامت کہا جاے تو غلط نہ ہو گا۔ پندرھویں صدی میں اس کتھیڈرل کی تعمیر ھنری دی ایٹتھ کے زمانے میں مکمل ھوی تھی ۔ گوتھک طرز کی کھڑکیوں میں رنگین شیشوں پر بنی فنکارانہ شبیہیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہمارے دائیں بائیں سے گزرتے ہنستے مسکراتے طالب علموں اور سیاحوں کے غول تھے.  ہم دائیں ہاتھ مڑ کر لکڑی کے ایک چھوٹے سے پل پر سے گزرے جو بمشکل ستر اسی فٹ چوڑا ہوگا۔ لیکن چھوٹے سے دریائے کیم کو عبور کرنے کے لیے بہت کافی۔ زن نے ساتھ لاے بیگ سے بطخوں کے لئے فیڈ نکالی . ہم نے پل پر کھڑے ہو کر سامنے  دیکھا تو کنگز کالج کی عمارت اور اس کے کیتھڈرل کا پورا منظر اب ھماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ دریائے کیم میں پنٹنگ یعنی یہاں کی روایتی کشتی رانی  جاری تھی۔ جیک نے بات آگے بڑھائی . تو پھر بڑے پیمانے پر اجتماعی تعاون کیونکر ممکن ہوا ؟ پروف بولے . یاد رکھو بڑے پیمانے پر انسانی تعاون مشترکہ بیانیے ہی کی مدد سے ممکن ہوتا ہے  ۔ اس ضرورت کے ما تحت روایتی قصے اور لوک کہانیاں ایجاد ھویں جو دھیرے دھیرے مزہب کی صورت اختیار کر گئیں۔ یہ سارے مشترکہ بیانیے سچ پر مبنی نہیں تھے اور نہ ہی ان کا سچا ہونا ضروری اور اہم تھا۔   ان پر اجتماعی اعتقاد باہمی  تعاون کے لیے ضروری اور اہم تھا۔ کسی دیوتا کو سچ ماننے والے مل جل کر ایک دوسرے کی مدد سے عظیم عبادتگاہ تعمیر کر سکتے تھے۔ جب کہ دیوتا کا سچ یا حقیقت ھونا کوی اہمیت نہیں رکھتا تھا.  یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ باہمی تعاون ہمیشہ ہنسی خوشی نہیں ہوتا تھا.  بلکہ بعض اوقات اس میں گھڑی ھوی جھوٹی کہانیوں کا فراڈ یا بزور طاقت کمزوروں کا زبردستی تعاون حاصل کر لینا شامل تھا.  حکمران طبقہ جس میں مذہبی رہنما بھی شامل تھے عوام کا اجتماعی تعاون حاصل کرنے کے لیے تشدد اور جھوٹے مزہبی قصے کہانیوں کا بے دریغ استعمال کرتے تھے. زن بطخوں کو فیڈ کر چکی تو ہم نے پل عبور کیا اور کیمبرج شہر کی مرکزی گلیوں میں داخل ہو گئے .  تیرھویں صدی سے دریاے کیم کے کنارے آباد یہ ہنستا بستا شہر اپنے تعلیمی اداروں کی وجہ  سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں تراشے ہوے پتھروں کی تنگ گلیاں ہیں جس کے دونوں طرف صدیوں پرانی تاریخی عمارتیں کھڑی ہیں۔ پیدل چلتے یا سایکل سوار نوجوان طالب علموں کی  ادھر سے ادھر جاتی رنگین اور پر جوش لہریں ہیں اور کہیں کہیں عالمانہ لباس پہنے ایک درسگاہ سے دوسری درسگاہ جاتے معتدل استادوں کی آہستہ خرامی اور بازاروں میں کسی عام شہر جیسی مصروفیت بھی…. جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *