This Urdu podcast explores the Sufi Way of Jalaluddin Rumi and his spiritual master Shams Tabrizi. Rumi is a remarkable 13th-century Sufi mystic who can be truly regarded as the bridge between east and west
رومی ، محبت کا پیامبر ، فکر انگیز انشے ، شارق علی
کسی دانا نے کیا خوب کہا تھا کہ کھونے کے لیے زنجیریں اور پانے کے لیے ساری کائنات۔ انسانی تاریخ کے ہر دور میں زیادہ تر انسان اپنے پیروں میں روایتی سماجی تصورات یا ذاتی خواہشات اور اناء کی زنجیریں پہنے زندگی کے مختصر سفر میں قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں. اسی انسانی ہجوم میں سے چند لوگ اپنے پائوں کی زنجیروں کو توڑ کر اور سچ اور حقیقتِ حال کی آگاہی کا شوق اپنے دِل میں لیے خود اپنے تذکیۂ نفس ، اپنی سوچ اور اپنے عمل کے ذریعہ سے اپنے دور کی فِکر اور تہذیب کے لیے ایک عظیم الشان جست اور سر افرازی کاباعث بنتے ہیں. ان میں سے کچھ مُصلحین ہیں ، کچھ مُفکِر، کچھ انقلابی ہیں اور سائنسدان بھی . آئیے آج ترکی کے عظیم صوفی شاعر جلال الدین رومی کا ذکرکریں جنہوں نے اپنے وقت کے روایتی تصورات کی بے حس اور بلند وبالا دیواروں کو گِراکر انسانی محبت ، رواداری، خدمت ، درگزر اور آپس میں مل جل کر اور خوش رہنے جیسی عام انسانی قدروں کو روحانیت کے درجہ پر پہنچا دیا ۔ وہ جب دُنیاوی علم کو تسخیر کرتے ہوئے اُس کے ادھورے پن سے واقف ہوئے تو انہوں نے سچ کی خوش آمدیدگی کے لیے اپنے دریچۂ دِل کو وا کر دیا ۔ یہ تیرہویں صدی عیسوی کا زمانہ ہے ۔ تُرکی کے شہر قُونیہ کے ایک مصروف بازار سے عالموں کے ایک گروہ کا گزر ہے ۔ کہ ایک درسگاہ سے دوسری درسگاہ تک جانے کے لیے اس بھرے پرے بازار میں عام لوگوں کے درمیان سے ہو کر گزرنا ان کی مجبوری ہے ۔ اس گروہ میں سب سے ممتاز جلال الدین رومی ہیں. جُبہ و دستار اور عمامہ پہنے اپنے وقت کے تمام علوم پر عبور رکھنے والے جید عالم. طالب علموں اور رفیق عالموں کے اس گروہ میں نگینہ کی طرح دمکتے ہوئے. اچانک اس مصروف بازار میںایک شخص ان کے بلکل سامنے آکھڑا ہو تا ہے ۔ کالے رنگ کا معمولی سا لباس پہنے، ایک در ویش نما عام سا شخص، کہ جو روز مرہ کے استعمال کی ٹوکریاںاپنے ہاتھوں سے بُن کر اپنے لیے رزق حلال کابندوبست کرتا ہے۔ حقیقتِ حال اور سچ کی تلاش میں در بدر گھومنے والا ایک مسافر۔ آنکھوں سے آنکھیں ملتی ہیں اور وہ درویش جس کا نام شمس تبریز ہے ، قونیہ کے عالم ِوقت رومی سے ایک سوال کرتا ہے ۔ یہ حقیقت حال کی آرزو میں ڈوبے ہوئے دو دلوں کی اور معرفت کے راستے پر چلنے والے اور حُب اﷲ کے دو سچے طالب علموں کی پہلی مُلاقات ہے. پھر قُونیہ کے درودیوار ان علمی مباحث کو اور ان روحانی ملاقاتوں کو تواترسے دیکھنے لگتے ہیں ۔ روایت ہے کہ ایک دن رومی ایک تا لاب کے کنارے اپنی ایک نایاب علمی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہیں اور شمس تبریز اُن کے پاس آتے ہیں اور اُن سے پوچھتے ہیں یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ جلال الدین رومی زیر لب مسکراتے ہیں اور بڑے فخریہ انداز سے جواب دیتے ہیں ۔ یہ وہ معاملات ہیں جن کی تمہیں کچھ بھی خبر نہیں۔ شمس تبریز رومی کے ہاتھ سے کتاب لے کر اُسے تالاب میں پھینک دیتے ہیںرومی تڑپ کر اُٹھتے ہیں اور تالاب میں ڈوبتی ہوئی نایاب کتاب کو بالآخر نکال لاتے ہیں لیکن وہ یہ دیکھ کر دم بخود رہ جاتے ہیں کہ اس کتاب پر پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں۔ وہ شمس تبریز کی طرف دیکھتے ہیں اور اُن سے پوچھتے ہیں یہ سب کیا ہے ۔ شمس تبریز اُن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں، یہ وہ معاملات ہیں جن کی تمہیں کچھ بھی خبر نہیں ۔ بارہ سو سات ع میں افغانستان کے شہر بلخ میں پیدا ہونے والے جلال الدین رومی بارہ سال کی عمر میں اپنے والد اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ منگولوں کے حملے کی وجہ سے تُرکی کے شہر قُونیہ میں ہجرت کر جاتے ہیں اور اپنی علمی زندگی کے عروج پر ۱۲۴۴ء میں اُن کی ملاقات حضرت شمس تبریز سے ہوتی ہے اور اُن کی زندگی میں ایک روحانی انقلاب برپاہو جاتا ہے ۔ شمس تبریز اُن کی یہ روحانی تربیت کسی مسجد یا مدرسہ میں نہیں کرتے بلکہ قُونیہ کے مصروف کُوچہ و بازار میں عام لوگوں کے درمیان گھومتے ہوئے، اُن سے باتیں کرتے ہوئے، راہگیروں کی گہما گہمی کے درمیان مصالحہ جات کی خوشبو سے مہکتے ہوئے بازاروں میں، بکری کا دودھ پیتے ہوئے اور مٹھی بھر کھجوروں سے اپنا پیٹ بھرتے ہوئے زندگی کی گہما گہمی اور اُس کے مختلف رنگوں سے متعارف کراتے ہوئے کرتے ہیں۔ وہ اُن سے کہتے ہیں اگر تم حُب اﷲکے سچے طالب ہو تو اس کائنات کواور اس دنیا کو محبت کا گہوارا سمجھو. اسی لیے تمہیں دوسروں سے اپنی ذات سے زیادہ محبت کرنی ہے۔ اُن کے نقطہ نظر اُن کی خوشیوں کو زیادہ اہمیت دینی ہے اور اپنی انا اور اپنی خواہش کے حصار سے نکلنا ہے ا ور اپنے دل کو محبت اور خوشی کے لیے کھول دینا ہے ۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اور روزمرہ کی صورت حال کو معمولی مت سمجھو بلکہ اسی معمول کی زندگی میں روحانی راز چھپے ہوئے ہیں ۔ رومی اور شمس تبریز کی یہ بڑھتی ہوئی ملاقاتیں ان کے طالب علموں اور ان کے ساتھیوں پر گراں گزرتی ہیں اور بات ذاتی مخالفت سے بڑھتے ہوئے حسد تک جا پہنچتی ہے. پھر ایک دن اندھیرے میں شمس تبریز کے سر پر پیچھے سے ایک وار ہوتا ہے اور جب وہ ہوش میں آتے ہیں تو اپنے آپ کولق ودق صحرا کے بیچوںبیچ اور اپنے ہاتھ پیروں کو رسی سے بندھا ہوا پاتے ہیں. وہ بالآخر اپنے ہاتھ پیروں کو رسی سے آزاد کراتے ہیں لیکن ان کا جسم زخموں سے چور چور ہے. لیکن وہ اسی زخموں سے چور چور بدن کو اپنے رب کی حمدو ثنا میں مشغول کر دیتے ہیں وہ ہاتھ اُٹھا کر اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے اُنہیں زندگی گذارنے اور محبت کرنے کا موقع فراہم کیا اور پھر وہ اپنے تمام دشمنوں، حاسدوں اور ان کے جسم کو زخمی کر دینے والے قاتلوں کو معاف کرتے ہیں. اُن کے حق میں بہتری اور فلاح کی دعا کرتے ہیں. اُن سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ رومی جب شمس تبریز کو قُونیہ میں نہیں پاتے تو ایک روحانی اضطراب کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی تلاش میں دربدر پھرنے اور ناکامی کے بعد اُن کی مداح سرائی میں دائرہ وار رقص کرتے ہوئے دیوانہ وار شعر کہنے لگتے ہیں ۔ اُن کے طالب علم اُن کے ان شعروں کو مُرتب کرنا شروع کرتے ہیں اور اس طرح دُنیا کومثنویِ مولانا روم کی صورت میں ایک بیش بہا ادبی خزانے کا تحفہ ملتا ہے ۔ رومی کا خیال تھا کہ اﷲتعالیٰ کی معرفت سب انسانوں کے لیے میسر ہے اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس مذہب اور کس عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں. اسی لیے ان کے عقیدت مندوں میں یہودی بھی تھے ، کرسچن بھی، مسلمان بھی، آگ کی پوجا کرنے والے زردشتی بھی اور بازنطینی یونانی بھی۔ رومی کا دور سیاسی خلفشار کا دور تھا. سلجوق دورِ حکومت میں بہت سی قومیں ایک ساتھ آباد تھیں. رومی کا پیغام اُن سب کے لیے اور آنے والے دنوں میں تمام انسانی نسل کے لیے ہم آہنگی اور محبت کا پیغام ہے ۔ وہ انسان اور اﷲ کے درمیان رشتے کو بنیادی قرار دیتے ہیں اور روایت کی دوسری تمام صورتوں کو ثانوی ۔ اور شاید اسی لیے اُنہیں ساری دنیا میں ایک روحانی مفکر کے طور پر لا زوال شہرت حاصل ہے. رومی کے کلام کا ترجمہ انگریزی سمیت مختلف مغربی زبانوں میں ہوچکا ہے اور ایک سروے کے مطابق وہ انگریزی زبان میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے غیر ملکی شاعر ہیں. وہ انگریزی ادب پڑھنے والوں میں اُسی قدر مقبول ہیں جس قدر شکسپیر اور وہ آج بھی اکیسویں صدی کے بیسٹ سیلر شاعر ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں ان کی پیدائش کے ۸؍سو برس بعد یونسکو نے اُسے رومی کا عالمی سال قرار دیا تھا ۔ رومی خود عقیدے کے لحاظ سے مسلمان تھے اور قرآن اور سنت اور شریعت پر عبور رکھنے والے عالم، لیکن وہ دوسرے انسانوں اور عقائد کے لیے جیسا کھلا ذہن اور دل رکھتے تھے اُس کی مثال نہیں ملتی ۔ وہ کہتے تھے کہ تم کیوں کسی قید خانے میں زندہ رہنا چاہتے ہو جب کے دروازہ کھلا ہوا ہے. شاید ہماری آج کی دنیا کو کہ جو عقائد میں بٹی ہوئی ہے رومی کے پیغام کی جس قدر ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی. اسی لیے بہت سے لوگ اُنہیں مشرق اور مغرب کے درمیان پل قرار دیتے ہیں —– ویلیو ورسٹی، شارق علی
Rumi `s global spiritual philosophy keeps him the best-selling poet of the 21st century. His popularity equals William Shakespeare in the English speaking world and his 800th birthday in 2007 was celebrated as the U.N International Year of Rumi. The story is spiritually moving and accompanied by mystical lyrics of Baba Bulleh Shah and Hazrat Amir Khusroo in the magical voices of Saeen Zahoor and Ustaad Shujaat Hussain Khan Researched, written, narrated and produced by Shariq Ali
Acknowledgement: Valueversity recognizes the excellence of Saeen Zahoor, Coke Studio and Ustaad Shujaat Hussain Khan and thankful for the use of brief audio clips For the pic above, thanks to the source Yelda Barel, Skylife, Turkish Airlines Journal No.245, Vol. 12 (2003), p. 92.