Most ancient Greek cities had an open-air theatre, usually, a bowl-shaped arena on a hillside sometime entertaining 15,000 people in the audience. Enjoy the story of magic called theatre
I am Azm, a student at Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
یونانی تھیٹر ، سیج ،انشے سیریل، اکتالیسواں انشا، شارق علی
بریخت کے کھیل گلیلو کو سٹیج کرنے کے سلسلے میں اسلم اظہر صاحب کی صدارت میں دستک گروپ کی اس دائرہ وار فرشی نشست میں وہ میری پہلی اور آخری شرکت تھی۔ پھر آخری سال کی تیاری نے بے بس کر دیا۔ غالباً وہاں اب سے تیس برس پہلے کے طالب علم اورآج آسٹن میں سوشل انتھروپولوجی کے پروفیسر کامران اصدر علی، انڈس ہسپتال کے ڈاکٹر ظفر زیدی ،اداکارہ ثانیہ سعید، پبلشر حوری نورانی اور دیگرایسے کئی روشن ستارے فرش نشین تھے۔ اسلم اظہر کی کڑکتی ہوئی پر جوش آواز اور دنیا بدل دینے کی نوجوان آرزویں بہت ولولہ انگیز تھیں۔ امتحان سے فارغ ہوا تو ریو آڈیٹوریم میں گیلیو کی کہانی نامی کھیل دیکھا۔ تھیٹر کس جادو کا نام ہے۔ اس دن احساس ہوا۔ پروفیسر گل کراچی کو یاد کر رہے تھے۔ سیج آڈیٹوریم کے گرین روم میں ریہرسل کا وقفہ تھا اور چائے کا دور جاری۔ دانی بولے۔ تھیٹر محض عمارت یا شورو غوغا نہیں بلکہ اس ہنگامے کے درِ پردہ وہ خیال ہے جو لکھاری کے مکالموں ،ہدایتکار کی ترتیب دی ریہرسل، سیٹ ڈیزائنر اور ٹیکنکل اسٹاف کی محنت اور اسٹیج پر اداکاری کے جوہر اور سب سے بڑھ کر تماشائیوں کے جوش و خروش سے زندہ ہو جاتا ہے۔ پہلا کھیل کب کھیلا گیا؟ میں نے پوچھا۔ پروفیسر بولے۔ ہو سکتا ہے یہ غاروں میں رہنے والے شکاریوں نے کھیلا ہو۔ یا قدیم مصریوں نے دیوتاؤں کے حضور مقدس گیت کے دوران اچانک رقص کے ڈرامائی مظاہرے سے اس کی پہل کی ہو۔ جب پہلی بار تماشائیوں کی دل بستگی کا سامان پیدا ہوا تو سمجھو ڈرامے کا آغاز ہوا۔ لیکن معلوم انسانی تاریخ میں اس کی روایت یونان سے شروع ہوتی ہے۔ وہ کیسے؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ یونانی تھیٹر کے دیوانے تھے۔ ہر قصبے، ہر شہر میں تھیٹر ضرور ہوتا۔ اس زمانے میں بھی تماشائیوں کی تعداد پندرہ ہزار تک پہنچتی۔ دیوتائوں کی خوشنودی کے لئے رقص، موسیقی اور کورس میں گائے جانے والے نغمے بتدریج کہانیاں اور پھر تمثیلی کھیل بنے۔ اداکار ماسک پہنتے اور بیک اسٹیج بجلی کڑکنے اور دھماکوں کی مصنوعی آوازیں پیدا کی جاتیں۔ لکھاریوں کا بہت احترام کیا جاتا۔ پانچ سو قبلِ مسیح کے یونانی المیہ نگار سوفوکل نے سو سے زیادہ کھیل لکھے جن میں سے سات آج بھی محفوظ ہیں۔ وہ نوے سال زندہ رہا اور کوئی پچاس برسں تک یونانی تھیٹر اور ایتھنزکے مذہبی تہواروں میں اس کا ڈنکا بجتا رہا۔ دکھنے میں کیسا تھا یونانی تھیٹر؟ رمز نے پوچھا۔ دانی بولے۔ نیم دائرہ اسٹیج پہاڑ کے دامن میں بنایا جاتا تاکہ آواز گونج سکے۔سامنے تماشائیوں کے لئے مختلف اونچائی پر بینچوں کی قطاریں کچھ یوں ہوتیں کہ سب کو دکھائی دے اور سب مکالمے سن سکیں۔ بیشتر کھیل المیہ ہوتے۔ کچھ مزاحیہ اور خوش کن اختتام والے بھی۔ کبھی حالات حاضرہ پر چبھتا ہوا طنز بھی ہوتا۔ لیکن دیوتائوں پر تنقید کی بالکل اجازت نہ تھی۔ ایسا کرنے پر موت کی سزا دی جاتی۔ اور دنیا کا پہلا اداکار؟ سوفی نے پوچھا۔ پروفیسر بولے۔ معلوم انسانی تاریخ کا پہلا اداکار تھیسپس ہے۔ کہتے ہیں یونان کے شہر ڈائینوسوس میں حمدیہ کورس کے دوران اس فنکار نے کہانی کی مناسبت سےاچانک ہی خود ساختہ مکالمے بولنا شروع کر دئیے تھے۔ یہ تاریخ میں اداکاری کا پہلا مظاہرہ تھا۔ تھیسپس کی عظمت کو یاد کرتے ہوئے آج بھی بہترین اداکار دنیا بھر میں تھیپسیئن کہلاتا ہے۔۔۔۔۔جاری ہے