How we Muslims treat our minorities is deplorable. Jews of Karachi now live in Ramla, Israel have built a synagogue called Magain Shalome Karachi in memory of a lost social harmony
I am Azm, a student at Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
مگین شلوم کراچی، سیج، انشے سیریل، چھتیسواں انشاء شارق علی
تقسیم کے وقت تقریباً ڈھائی ہزاربنی اسرائیلی یہودی کراچی میں آباد تھے۔ بیشتر کی رہائش لارنس روڈ، رامسوامی اور رنچھوڑ لائن کے کوارٹروں میں تھی۔ دست کار، دفتری بابو، چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے۔ کچھ تعلیم یافتہ خوشحال بلکہ مالدار بھی۔ ذکر تھا کراچی کا اور دل گداز بیان پروفیسر گل کا۔ کہنے لگے۔ کوشر گوشت کھانے اور عبرانی ملی مراٹھی بولنے والے یہ لوگ ایک ہم آہنگ ماحول کا حصہ تھے جس میں پارسی، ہندو، گووانیز اور مسلمان اکثریت مل جل کر رہتی تھی۔ حاجی کیمپ کے قریب ان کا الگ قبرستان بھی تھا۔ جانے کیوں آزادی ملی تو شہر کی اکثریت اپنے ماضی سے خوف محسوس کرنے لگی اور اس کا اظہار۔ عمارتوں، گلیوں اور شاہراہوں کے ہندو، پارسی اور یہودی ناموں کی تبدیلی سے ہونے لگا۔ جانے جوبلی مارکیٹ کے پاس سولومن ڈیوڈ اسٹریٹ کا کتبہ آج بھی موجود ہے یا نہیں۔ یہودی کمیونٹی کے سربراہ اور میونسپلٹی کے سرویئر سولومن نے مگین شلوم نامی مسجد اور اپنی بیوی شیگل بائی کی یاد میں ساتھ لگا کمیونٹی ہال اٹھارہ سو ترانوے میں تعمیر کروایا تھا۔ وہ اور اسکی بیوی کراچی ہی میں دفن ہیں۔ رنچھوڑ لین کے مرکزی چوک کے قریب ستر کی دہائی تک یہودی مسجد ایک جانی پہچانی عمارت تھی۔ گلی کا نام ہی یہودی مسجد گلی تھا۔ تقسیم کے بعد اکثریتی مسلمانوں نے اسرائیل کے قیام اور عرب اسرائیل جنگ کے ایمان افروز موقعوں پر یہودی مسجد پر باقاعدگی سے حملہ اور اسے آتش زان کرنا شروع کیا۔ بیشتر یہودی یا تو اسرائیل ہجرت کر گئے یا خود کو پارسی اور عیسائی کہنے لگے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں مسجد مسمار کر کے یہاں مدیحہ اسکوائر نامی شاپنگ پلازہ قائم کر دیا گیا. اس عبادت گاہ کی آخری رکھوالی راچیل جوزف دھمکیوں سے خوفزدہ ہو کر لندن ہجرت کر گئی۔ کوئی یہودی عاشق کراچی کا؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ لمبی فہرست ہے کراچی کے عاشقوں کی۔ بیشتر تو میری طرح زبانی کلامی اور بے عملے۔ اسی میں انیسویں اور بیسویں صدی کے خدوخال دینے والے چارلس نیپیئر اور جیمز اسٹریچن بھی شامل ہیں۔ انہی میں موسز سومیکی بھی ہے جسے شہر کا گمنام محسن سمجھ لو۔ عراقی نسل کا یہودی آرکیٹکٹ سومیکی اٹھارہ سو پچھتر میں لاہور میں پیدا ہوا لیکن بیشتر عمر کراچی میں گزاری، غالباً سولہویں صدی میں اس کے بزرگ ایرانیوں کے ظلم سے بھاگ کر ہندوستان اور پھر کراچی میں آ کر آباد ہوئے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد وہ شاید واحد دیسی تھا جو بیسویں صدی کے آغاز میں عالمی آرکیٹکٹ سوسائٹی کا ممبر بنا۔ کراچی کی بہت سی عمارتیں اسی کا ڈیزائن ہیں۔ بی وی ایس پارسی اسکول، صدر میں گوان ایسوسی ایشن کی عمارت، بندر روڈ کا خالق دینا ہال، کھارادر کی جعفر فیدو ڈسپنسری اور قائد اعظم کافلیگ اسٹاف ہائوس اسی کے کارنامے ہیں۔ آخر کار وہ بھی اکثریتی تنگ نظری کا شکار ہوا اور تقسیم سے چند مہینے پہلے انگلینڈ ہجرت کر کے وہیں وفات پائی۔ کراچی کی کیا بات دکھ دیتی ہے آپ کو؟ سوفی نے پوچھا۔ آہ بھرکر بولے۔ ماضی کے معتدل، پر امن، ثقافتوں اور عقیدوں کے لئے کشادہ دل شہر کی موجودہ نوے فیصد اکثریت کی تنگ نظری۔ اس تاریخی سچ کو جھٹلانے کی کوشش کے اس شہر کی تعمیر اور آرائش میں انگریز، پارسی، ہندو، گووانیز اور یہودی سب برابر کے شریک تھے۔ جہاں قبروں پر لگے سنگ مرمر کے کتبے چوری سے محفوظ نہ ہوں وہاں جھاڑیوںسے ڈھکی زمین پر بکھری چند سو یہودی قبروں کی حفاظت کا ذمہ کون لے سکتا ہے بھلا۔ ممکن ہے کوئی شاپنگ پلازہ اس زمین کو جلد ہی ہتھیا لے۔ سنی سنائی بات ہے کہ کراچی کے بچے کھچے یہودی مہاجر اب اسرائیلی علاقے رمالا میں آباد ہیں اور انہوں نے اپنی مقامی عبادت گاہ کا نام مگین شالوم کراچی رکھا ہے۔۔۔۔۔جاری ہے