Lady Dufferin Hospital in Karachi was built in 1898. The ambiance carries the fragrance of those who contributed generously. Lady Dufferin, Lady Elgin, Mr. Eduljee Dinshaw, Dr Elizabeth Stephens and many more
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
محسن، سیج، انشے سیریل، پندرہواں انشاء، شارق علی
سول ہسپتال کی دیوار کے ساتھ چلتی فت پاتھ پر ایک دنیا آباد ہے۔ کیمسٹ شاپس، کھانے پینے کے ٹھیلے، آتے جاتے لوگوں کا ہجوم، دیوار سے ٹیک لگائے مریضوں کے پریشان رشتے دار یا خون بیچ کر گزارا کرتے نشئی۔ طبی سہولیات سے محرومی کا دکھ بسا ہوا ہے اس اداس منظر میں۔ پروفیسر گل کراچی کا ذکر کر رہے تھے۔ بولے۔ سڑک کے کونے پر بائیں ہاتھ مڑو تو زچہ و بچہ کے لئے لیڈی ڈفرن ہسپتال کا مین گیٹ ہے۔ نیم کے سایہ دار درخت کی گھنی چھاؤں سے گزر کر پیلے سینڈ اسٹون سے بنی برطانوی طرز کی عمارت میں داخل ہوں تو دو مجسموں پر نگاہ پڑتی ہے۔ ایک ایڈل جی ڈینشا کا اور دوسرا شاید ملکہ وکٹوریا کا ہے۔ سامنے ٹیک کی لکڑی کا بنا اوپر جاتا بوسیدہ زینہ ہے۔ چڑھتے اترتے کراچی کی تاریخ کے مہربان کرداروں کی یاد سرگوشی بن کر کانوں میں گونجتی ہے وہاں۔ وہ محسن جنہوں نے طبی سہولیات کی صورت مقامی لوگوں کو بہت پیار دیا تھا۔ کون تھے وہ کردار؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ ایک تو شمالی آیرلینڈ سے تعلق رکھنے والی 1884 میں اپنے شوہر وائس رائے بیرن ڈفرن کے ساتھ ہندوستان پہنچنے والی لیڈی ڈفرن تھی جس کے نام سے یہ ہسپتال منسوب ہے۔ وہ گورنمنٹ ہاؤس میں باقاعدگی سے زنانہ دربار کرتی اور یوں وہ مقامی عورتوں کے سماجی اور طبی مسائل سے آگاہ ہوئی۔ کاونٹیس آف ڈفرن فنڈ کی بنیاد رکھ کر اس نے ہندوستان کی عورتوں کو عملی طبی مدد فراہم کی۔ اس ادارے نے بہت سی لیڈی ڈاکٹروں، نرسوں اور مڈوائفوں کو ٹریننگ دی تاکہ زچگی سے متعلق طبی معیار بہتر بنا کر ان گنت جانیں بچائی جا سکیں۔ پھر اسی فنڈ کے تحت پورے ہندوستان میں بہت سے ہسپتال اور کلینک قائم کئے گئے جو اس کے نام سے معنون ہیں۔ رڈ یارڈ کپلنگ نے اپنی نظم سانگ آف دی وومین میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے اسے۔ صرف چار سال کے قیام میں اعلی انسانی خدمت کے عوض کراؤن آف انڈیا اینڈ رایل آرڈر آف وکٹوریا کے اعزازات ملے۔ 1902 میں شوہر کے انتقال کے بعد اس نے لندن کے علاقے چیلسی میں ایک متوسط بلکہ آخری ایام میں تنگ دستی کے دن گزارے۔ ایڈیل جی کا مجسمہ کیوں ہے وہاں؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے۔ ہسپتال کا سنگِ بنیاد تو اس دور کی لیڈی وا یسروئے ایلگن نے لیڈی ڈفرن کا دور ختم ہو جانے کے باوجود اس کی خدمات کے اعتراف میں اسی کے نام پر رکھا تھا۔ لیکن عمارت کی تعمیر کے اخراجات اک سخی پارسی تاجر ایڈلجی ڈنشا نے اٹھائےتھے۔ اس شہر پر ایڈلجی کے اس قدر احسانات تھے کے 1930 تک ان کے مجسمہ کراچی کے مختلف چوکوں میں نصب تھے، یوں تو آج کے کراچی میں ایڈلجی سے زیادہ امیر لوگ موجود ہیں اور آج زچہ و بچہ کی صحت کی صورتِ حال اس ہسپتال کے قیام کے دنوں سے بھی زیادہ ابتر ہے، لیکن دولت کی فرانوی اور بات ہے اور درد مندی اور سخاوت دوسری۔ یہ سچ ہے کے نچلی منزل پر او پی ڈی اور وربیجی کٹرک میٹرنیٹی بلڈنگ کی تعمیرِ نو انفاق فاؤنڈیشن نے آغا حسن عابدی کی یاد میں کروائی تھی اور بہت سے اور لوگ بھی مدد کو آئے تھے۔ لیکن آج یہ عمارت بے یارو مددگار ہے۔ اور وہاں کے ڈاکٹر اور نرسیں؟ رمز نے پوچھا۔ بو لے۔ بے لوث طبی کارکنوں نے اس ادارے کو برسوں کامیابی سے چلایا ہے۔ ان کے نام تاریخ کے صفحوں میں درج ہوں یا نہ ہوں۔ ان کے مر یضوں کے دلوں میں ضرور زندہ ہیں۔ 1915 میں خدمت کا ارادہ لئے الیزابتھ اسٹیپفنس نامی لیڈی ڈاکٹر بھی کراچی کے لئے برطانیہ سے بحری جہاز میں روانہ ہوئی تھی۔ اسے لیڈی ڈفرن ہسپتال کی سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس کا بحری جہاز کراچی کے ساحل کی طرف گا م زن تھا کہ جرمنوں نے پہلی جنگِ عظیم کے دوران اس جہاز کو تو رپیڈو کر کے تباہ کر دیا تھا۔ پانچ سو میں سے ساڑھے تین سو مسافر جن میں ایلزابیتھ بھی شامل تھی اس سانحے میں مارے گئے۔ وہ کراچی کبھی نہ پہنچ سکی۔ کون جانے آج بھی اس کی روح ان بوسیدہ سیڑھیوں پر اور ہسپتال کے کوریڈور میں چکر لگاتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔