Karachi used to be a lovable cosmopolitan city where first ever Parsi Colony in 1920s was a symbol of pluralistic harmony
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serialListen, read, reflect and enjoy!
پارسی کالونی، سیج ،انشے سیریل، چھٹا انشاء، شارق علی
پروفیسر گل کراچی میں گزارا لڑ کپن یاد کر رہے تھے۔ بولے۔ سائنس کالج کا پہلا سال تھا۔ شاعری سے بے حد دلچسپی۔ واپسی کی بس لیتا تو پیلے سینڈ اسٹون سے بنے ماما پارسی اسکول کے سامنے گھنے درخت کے ساے تلے بنے اسٹاپ پر وہ سہیلیوں سمیت بس میں سوار ہوتی۔ نشتر روڈ پر اترتی تو خاموش رفاقت کا سلسلہ ٹوٹتا۔ شناسائی مسکراہٹوں اور پھر انسیت میں کب بدلی، ٹھیک سے یاد نہیں۔ رستم جی کالج کا یار تھا۔ ایک دن پارسی کالونی ملنے گیا تو پڑوس کے گھر کی سبز باڑھ سے ڈھکی نیچی چار دیواری سے نظر آتے لان کی کیاریوں میں گلاب، چمنبیلی اور رات کی رانی کے قریب اسے دیکھا۔ پاس ہی نیم کے درخت پر رسی کا جھولا ڈالا تھا۔ دو منزلہ گھر، مستطیل دریچے، اوپر کو جاتا زینہ۔ پہلی منزل کی بیٹھک کے سامنے گیلری۔ کسی اور زمانے کی شاخ پر آباد تھا وہ منظر۔ پر سکون، خوش حال اور پر امن کراچی، جس میں محبت ممکن تھی۔ پھر رستم جی نے بتایا وہ لوگ امریکہ چلے گئے۔ ناصر کاظمی کے اداس کلام سے دلچسپی اور گہری ہو گئی۔ کچھ اور تفصیل پارسی کالونی کی؟ سوفی نے معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوے پوچھا۔ بولے۔ انیس سو بیس سے تیس کے درمیان کراچی کے پارسیوں نے موحودہ ایم اے جناح روڈ اور نشتر روڈ کے درمیان ایک بڑے علاقے پر کشادہ گلیوں کے کنارے ایک ہزار گز کے اٹھاون گھر اور درمیان میں باغ، لائبریری اور عبادت گاہ قائم کرکے پارسی کالونی بسائی تھی۔ رستم جی کے دادا کہتے تھے ان کا بچپن کالونی کے پارک میں جھولا جھولتے اور ٹینس کورٹ میں میچز دیکھتے گزرا۔ بھیدوار لائبریری کتابوں سے بھری رہتی تھی اور وہاں ٹیبل ٹینس کے مقابلے بھِی ہوتے۔ پن چکی سے نکلتے کنویں کے میٹھے پانی کا تو اب نام و نشان بھی باقی نہیں۔ تقسیم کے بعد جناح صاحب کے استقبال میں شاندار جلسہ ہوا تو پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی تھی پارسی کالونی۔ کراچی کے لئے کچھ کیا بھی ان لوگوں نے؟ رمز نے پوچھا. بولے۔ کراچی میں آباد پارسی ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں لیکن جدید کراچی کی تشکیل اور سماج سدھار پر دل کھول کر خرچ کیا ہے انہوں نے . شہر کے پہلے میئر جمشید نسروانجی مہتا نے، جو پارسی تھے،بوائے اسکاؤٹ کو منظم کیا۔ متعدد ادارے اور اسکول قائم کئے۔ ڈی جے کالج، این ای ڈی یونیورسٹی، ڈاؤ میڈیکل کالج، لیڈی ڈفرن ہسپتال، اسپینسر آئی ہسپتال، ماما پارسی اور بی وی ایس پارسی اسکول، پارسیوں کی دل کھول مالی امداد کے بغیر قائم ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ کہاں سے آ کر آباد ہوے تھے یہ ؟ میں نے پوچھا۔ بولے۔ نویں صد ی میں ایران پر مسلمان قابض ہوئے تو ان کے اجداد ہجرت کر کے جنوبی ایشیا پہنچے اور ایران کی نسبت سے پارسی کہلائے۔ سردار جدی رانا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بوجھ نہیں شیر و شکر بن کر رہیں گے۔ جلد ہی یہ تجارت میں کامیاب ہوئے۔ سینکڑوں سال قبل مسیح کے ایران میں زرطشت نے قبائلی جنگوں کے خون خرابے میں ایک امن پرست مذہب کی بنیاد رکھی تھی۔ نیکی کے خدائے واحد اھورا مزدا کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ بالآخر نیکی بدی پر غالب ہو گی۔ خیر کی مقدس علامت آگ کا عبادت گاہ میں مسلسل جلنا پجاری کی ذمہ داری ہے۔ لباس میں پوشیدہ پاکیزگی کی علامت سفید سدری پہننا لازم جو انتقال کے بعد جنازے کے اوپر رکھ دی جاتی ہے۔ اور میت خاموش مینار میں پرندوں کی غذا ۔ اور نئی نسل؟ سوفی نے پوچھا. بولے۔ یہ لوگ شدت پسندوں کے براہِ راست نشانے پر تونہیں لیکن مذہبی منافرت کا خوف ضرور موجود ہے۔ سیاسی نا ہمواری اور مستقبل کی نا امیدی کے باعث نئی نسل مغرب کو ہجرت کر رہی ہے۔ شادی کی سخت شرائط ، اور گھٹتی ہوئی شرح پیدائش بھی تعداد میں کمی کا سبب ہے۔ کوئی پندرہ ہزار پارسی ہیں اب کراچی میں اور بیشتر عمر رسیدہ۔ مقدس آگ کے احترام میں منہ ڈھکا مخصوص لہجہ اور قدیم مناجات اب ایک بھولی بسری یاد بننے کو ہے۔ شاید کراچی اپنے محسنوں سے جدا ہونے کو ہے۔ زبان اور ثقافت کا حسین گلدستہ میرا شہر بھی تو بہت بدل گیا ہے۔ اب وہاں سبز با ڑھ سے ڈ ھکی نیچی چار دیواریاں نہیں ، نوکدار سلاخوں اور شیشوں کی اونچی فصیلیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے