Enjoy the forerunner of indus civilization Kot Diji and the remarkable eighteenth century fort in Khairpur district, Sindh, Pakistan in this story
I am Azm, a student of Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
کوٹ ڈیجی، سیج، انشے سیریل، چوتھا انشا ، شارق علی
پیلی کھجوروں سے بھری طشتری بڑھاتے ہوئے بولے ۔ بھئی یہ چکھو۔ خیرپور سے لائے ہیں ہمارے بچپن کے دوست۔ رمز اپنے تھیسس کا ڈرافٹ لئے پروفیسرگل سے ملنے ہاسٹل سے نکلا تو میں اور سوفی بھی ساتھ ہو لئے تھے۔ فیکلٹی کالونی میں قرینے سے بنے کشادہ بنگلے کے لان میں بیٹھے وہ بچپن کا البم دیکھ رہے تھے۔ ہمیں بھی اپنی تصویر دکھائی۔ شلوار قمیض پر سندھی ٹوپی، اجرک اور کھسہ۔ کہنے لگے۔ ہمارا بچپن سندھ میں گزرا۔ شاعری، رقص و موسیقی، میلے ٹھیلے، مضبوط خاندانی اور برادری نظام سے محبت کرنے والے لوگ ہیں سندھی۔ عرب تاجروں نے دریا کو سندھو کہا تھا جس کے سیلابی میدانوں میں نیل کے کنارے جیسی قدیم تہذیب آباد تھی۔ صوفیوں کی سر زمین ہے یہ۔ تیسری صدی ہجری کے ابو علی سندھی سے لعل شہباز قلندر اور شاہ لطیف بھٹائی سمیت سب ہی ملامتی صوفیوں سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ خود اپنی ذات، سماجی اور مذہبی روایت پر تنقیدی نظر کی جرات رکھنے والے، سوال اٹھانے والے۔ گویا مشرق کے کریٹیکل تھنکرز تھے سندھی صوفی۔ بہت لذیذ ہے یہ کھجور۔ میں بے ساختہ بول اٹھا۔ بولے۔ پام کے خاندان سے ہے کھجور کا درخت بھی۔ کوئی سولہ فٹ اونچے درختوں میں لگے آٹھ دس کلو وزنی گچھے۔ ہر ایک میں سینکڑوں کھجوریں۔ خشک کر لو تو وزن کا پچاس فیصد شکر۔ شمالی افریقہ اور مشرق وسطی میں ہزار سے اوپر اقسام ہیں ان کی۔ لیکن خیرپور کی کھجور لاجواب۔ کوئی اور شہرت اس علاقے کی؟ سوفی نے بات بڑھائی۔ بولے۔ خیرپور سے بیس میل دور روہڑی کی پہاڑیوں میں کوٹ ڈیجی ہے وہاں۔ ۱۹۵۰ میں آثار قدیمہ کی کھدائی میں قدیم اور جدید ہڑپہ تہذہب کے پانچ ہزار اور دو ہزار سالہ پرانے شہرکی دیواریں، رہائش گاہیں اور نوادرات ملے تھےوہاں سے۔ تانبے اور کانسی کے بنے برتن اور چوڑیاں، نیزے کی آنی اور مٹی پر بنی انسان، بیل اور پرندوں کی شبیہیں، سیرامک کے برتن مخصوص کوٹ ڈیجی طرز کے ہیں ۔ لگتا ہے آگ لگنے سے تباہ ہوا تھا یہ شہر۔ دریائے سندھ کے سیلابی میدانوں میں قائم قدیم موئن جو دڑو اور ہڑپہ تہذیب ہی کا سلسلہ تھا یہ بھی۔ ایک قلعہ بھی تو ہے وہاں۔ رمز نے کہا۔ بولے۔ ۱۷۸۵ سے ۱۷۹۵ کے درمیان میر سہراب خان تالپور نے اسے تعمیر کروایا تھا دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر۔ شہر کے گرد بارہ فٹ چوڑی اور ۵ کلو میٹر لمبی مٹی کی بنی حفاظتی دیوار بھی تھی جس میں مورچے بنے تھے۔ شہر میں داخلہ صرف فولاد سے بنے مرکزی دروازے سے۔ حالت امن میں ا میر آف خیرپور کی رہائش گاہ تھی یہ۔ مزے کی بات یہ کہ اس قلعے پر کبھی کوئی حملہ نہیں ہوا۔ چونے کی پتھریلی پہاڑیوں پر بھٹی میں پکی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا تھا یہ ۔ سو فٹ اونچی پہاڑی اور تیس فٹ اونچی قلعے کی دیواریں اور پچاس فٹ اونچے تین حفاظتی مینار بھی۔ لمبائی کوئی آدھا کلو میٹر۔ قلعہ پہاڑی ہی کی شکل کا ہے اورفصیل میں بنی پچاس چوکیاں۔ مشرقی جانب درجہ وار تین مرکزی دروازے. اتنے مضبوط کہ ہاتھی بھی نہ گرا سکیں۔ توپ کے گولوں سے خصوصی طور پر محفوظ ۔ توپیں نصب کرنے کے کئی مقامات بھی بنائے گئے ہیں اس میں۔ قلعہ صحرا کے کنارے پر اس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ دشمن کی فوجیں دریا کے کنارے سر سبز کھیتوں تک نہ پہنچ سکیں اور انہیں پانی اور غذا کی سپلائی میسر نہ آ سکے۔ تالپوروں سے زیادہ مجھے تو اس علاقے کے ان گنت بے نام دہقانوں اور سپاہیوں کی شبانہ روز محنت اور فن کا شاہکار لگتا ہے یہ قلعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے