Home » Blog » Sitaron Ka Musafir ستاروں کا مسافر، دادا اور دلداده، انشے سیریل ، سوواں اور آخری انشا Cosmos Explorer, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 100, The end
Sitaron Ka Musafir ستاروں کا مسافر، دادا اور دلداده، انشے سیریل ، سوواں اور آخری انشا Cosmos Explorer, Grandpa & me, Urdu/Hindi Podcast Serial, Episode 100, The end
This final episode pays tribute to the brilliance and courage of a cosmos explorer, Stephen William Hawking. His contribution to science is immense. His life, a great source of inspiration for the human race
This Inshay serial (Urdu/Hindi flash fiction pod cast) takes you through the adventures of a teenage boy and the wisdom of his Grandpa. Mamdu is only fifteen with an original mind bubbling with all sorts of questions to explore life and reality . He is blessed with the company of his grandpa who replies and discusses everything in an enlightened but comprehensible manner. Fictional creativity blends with thought provoking facts from science, philosophy, art, history and almost everything in life. Setting is a summer vacation home in a scenic valley of Phoolbun and a nearby modern city of Nairangabad. Day to day adventures of a fifteen year old and a retired but full of life 71 year old scholar runs side by side.
Listen, read, reflect and enjoy!
ستاروں کا مسافر، دادا اور دلداده، انشے سیریل ، سوواں اور آخری انشا ، شارق علی
ٹرین پھول بن کے اسٹیشن پر رکی تو شام ڈھلنے کو تھی . نصیبن بوا اور ڈرائیور استقبال کو موجود تھے . نیرنگ أباد میں یانی آپا اور انکل کے ساتھ گزا ری چھٹیاں اب ایک بھولا بسرا خواب تھا . ایم بی بی ایس کی تکمیل اور کینیڈا میں اعلی تعلیم یانی آپا کی دنیا ھے اورکل بورڈنگ ہائوس کو واپسی اور اے لیول کی تیاری۔ پھر یونیورسٹی میں داخلہ میری دنیا۔ الگ مداروں میں گھومتے شاید دور ہوتےستاروں کا مسافر، دادا اور دلداده، انشے سیریل ، سوواں اور آخری انشا ، شارق علی دو ستارے ہیں ہم ۔ راستے بھر دل گھنگھور گھٹا بنا رها جو برسنے کو بےتاب ھؤ. گھر پہنچ کر میں اور کمرے کی تنہائی پھوٹ پھوٹ کر روئے. کھانے کے بعد دادا جی اورمیں برآمدے میں آ بیٹھے۔ پھول بن کی پر سکون خاموشی میں ستاروں بھرا آسمان جگمگا رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔ کیا قسمت ستاروں پر تحریرھوتی ہے دادا جی ؟ بولے۔ قدیم لوگوں کا یہی عقیدہ تھا۔ وہ ستاروں کے جمگھٹوں کو فرضی جانور ، انسانی شکلیں اور دیوتا قرار دے کر زمینی واقعات سے ان کا ناتا جوڑ لیتے تھے۔ مذاہب اور علم فلکیات کی ابتدا مفروضوں ہی سے ہوئی تھی ۔ پھر آسمانی مشاہدے سے کلینڈر بنا اور زراعت کو فائدہ پہنچا، سمندری راستوں کی نشاندہی ممکن ہوئی۔ لیکن آج کے سائینسدان تو ستاروں کے مسافر ہیں۔ وہ کیسے؟ میں نے پوچھا۔ بولے. برطانوی سائینسدان اسٹیفن ہاکنگ نے تو اپنی بیسٹ سیلر کتاب بریف ہسٹری آف ٹائم میں ہم جیسے عام لوگوں کو بھی ستاروں کے سفر میں شامل کر لیا ہے۔ اس کے خیال میں اس زمین پر ہم انسان زیادہ سے زیادہ ایک ہزار سال اور جی سکتے ہیں۔ ستاروں کی سمت سفر اور خلائی بستیاں آباد کیے بغیر انسانی بقا ممکن نہیں۔ کچھ اور ہاکنگ کے بارے میں؟ میں نے پوچھا۔ بولے ۔ کیمبرج کا بے حد زہین اور قابل طالب علم اکیس سال کی عمر میں ایک لا علاج بیماری کا شکار ہوا تھا ۔ ڈاکٹروں کی پیش گوئی صرف دو سال کی زندگی تھی۔ آج چوہتر سالہ مکمل اپاہج ہاکنگ جو عام بول چال سے محروم لیکن کمپیوٹر کی مدد سے مخاطب ہوسکتا ہے، اپنے روشن ذہن کی مشعل تھامے سائینسدانوں کی صف اول میں شامل ہے۔ اس کی کتاب جارج کی خفیہ کائناتی چابی نے سائنسی جوش کوبھرپور کامیابی سے بچوں تک بھی پہنچایا ہے۔ اس کا زیادہ تر کام بلیک ہول کے بارے میں ہے۔ بلیک ہول کیا ؟ میں نے حیران ھؤ کر پوچھا۔ بولے۔ کائنات کا سب سے زیادہ پراسراراور طاقتور وجود۔. کسی دیو ہیکل ستارے کی طبعی موت اور دھماکے سے تباہی سپر نووا کہلاتی ہے۔ سپر نووا کا مرکزی نقطہ بے پناہ کشش ثقل کی وجہ سے تباہ شدہ مادے حتی کے روشنی کی کرنوں کو بھی نگلنے لگتا ہے تو بلیک ہول وجود میں آتے ہیں۔ بلیک ہول خود دکھائی نہیں دیتے لیکن ایونٹ هورائزن ان میں دفن ہوتی ہوئی روشنی کا وہ دائرہ ہے جس سے سائنسدان ان کی موجودگی سے واقف ہوتے ہیں۔ کوئ بھی شے اس افق کی سرحد پار کر لے تو واپسی ممکن نہیں۔ کہکشاوں کے مرکز میں نا قابل بیان حد تک بڑے بلیک ہول پاے جاتے ہیں۔ مایوس تو ضرور ہوتا ہو گا ہاکنگ اپنی معذوری سے؟ میں نے بوجھل دل سے پوچھا ۔ بولے۔ وہ کہتا ہے معذوری غصہ یا شکایت بن جائے تو لوگوں کے پاس آپ کے لئیے بالکل وقت نہیں ہوگا۔ سچ پوچھیے تو زندگی سے نبرد آزمائی ہی سب سے بہتر راستہ ہے۔ مجھے دیکھیے میری زندگی کا سفر کچھ ایسا ناکام تو نہیں—- اختتام