ٹیمز کے ساتھ ساتھ چلتے ، ساؤتھ بینک میں پرانی کتابوں کے سٹال اور ریسترانوں کے پاس سے گذرتے، اور لندن کی کبھی کبھار دھوپ میں نہاتے، جب میں اور مونا نیشنل تھیٹرلٹل ٹن کے کھچا کھچ بھرے ہال میں داخل ہوے تو لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر حیران رہ گئے . ہرعمر اورجنس کے ہند و پاک دیسی اور انگریز ، دلکش اسٹیج ، دلچسپ کہانی ، تاثر کن مکالمے ، توجہ جذب اداکاری ، دیدہ زیب لباس اور با کمال موسیقی . یہ ہے احوال دارا کا جسسے انگریزی کا لباس پہنایا ہے تانیا رونڈر نے .
اجوکا تھیٹر پاکستان میں سب سے پہلے کھیلا گیا یہ کھیل لکھا ہے لاہور کے صحافی ، ڈرامہ نگار، اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے شاہد ندیم نے جو ضیاء الحق کے دور میں بابند سلاسل بھی رہ چکے ہیں . دارا کا پس منظر سترہویں صدی کا مغلیہ ہندوستان ہے. کہانی تخت و تاج کے حصول کی خون آلود داستان سے کہیں بڑھ کر. یہ وہ دور ہے کے جب قاتلوں کی طرح تلواروں کے بھی نام ہوتے تھے ، جب مسافر سفر کے دوران ہاتھی تبدیل کرتے تھے ، فقیر معجزے دکھاتے تھے اور موت ہر گلی کوچے میں دو قدم کے فاصلے پر . کھیل کا بنیادی خیال اعتدال پسند دارا شکوہ اور شدت پسند اورنگ زیب کی ہم خیال سوچ کے درمیان پیش کیا جانیوالا مکالمہ ہے اور یہی موجودہ دور کے حوالے سے اس کھیل کو اہم بناتا ہے . نکتہ عروج شرعی عدالت کا وو منظر ہے جس میں دارا کو اورنگزیب کے لگانے گئے اس الزام کا جواب دینا ہے کے وو اپنی سوچ اور عمل کے لحاظ سے مرتد اسلام ہے یا نہیں . یہ منظر اعتدال اور شدت پسندی کے درمیان مدلل بحث کی صورت میں پیش کیا گیا ہے . دارا ایک انسان دوست ،آزاد خیال ، صوفی منش ، اور سب مذاہب کے لئے احترام رکھنے والا اور اورنگزیب اوراس کے حامی علماء ذاتی مفاد اور اقتدار کے لئے شرعیت کا بے دریغ منتقمانہ استعمال کرنے پر تیار . کھیل دیکھنے والے اپنے تصور خیال میں اس تمثیلی صورت حال کو موجودہ دور کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور بار بار. ا قتدار کے ایوانوں میں تخت اور طاقت کے حصول کے لئے عقائد کے اندھیرے اجالوں کی کہانی .
ڈرامائی عروج وو لمحہ ہے کے جب دارا اپنے زنجیربندھے دونوں ہاتھ بلند کر کے کہتا ہے کے کون جان سکتا ہے کب ہم کون سا دروازہ کھولیں اور روشنی ہمارے سامنے ہو یہ کھیل دو ہزار نو میں لکھا گیا اور اسلامی شرعیت میں موجودہ دور کی ایک بار پھر دلچسپی کے حوالے سے یہ ایک جرات آمیز تحریر ہے . ایک اعتبار سے یہ کھیل شکسپیریا یونانی المیے سے قریب تر لگتا ہے لیکن اٹھاۓ گئے سوالوں کی اس دور سے مناسبت اسے اہم بناتی ہے . دارا کا کردار اپنی آزادانہ سوچ ، ہر دلعزیزی اور با کمال قوت استدلال کے سبب ہیرو بن کر سامنے آتا ہے . کٹرینا لنڈسی کے تیار کردہ سیٹ کی خوبصورتی اپنی جگہ قابل ذکر . پتھروں سے بنی محرابیں ، سنگ مرمر کی سیڑھیاں ، فولادی دروازے اور دیوان ا خاص کی دیدہ زیبی کا کامیاب تاثر. نادیہ فال کی ہدایت کاری ، مشرقی رقص و موسیقی کا بر محل استعمال ، حیران کن حد تک لاجواب