Skip to content
Home » Blog » لُک فیری کی کتاب — فکر کی مختصر تاریخ

لُک فیری کی کتاب — فکر کی مختصر تاریخ

  • by

لُک فیری کی کتاب — فکر کی مختصر تاریخ

✍️ شارق علی
ویلیوورسٹی

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انسان نے سوچنا کب شروع کیا؟ یہ غور و فکر کہ ہم کون ہیں؟ دنیا کیا ہے؟ اور موت کے بعد کیا ہوگا؟ — یہی بنیادی سوالات انسانی تہذیب کے آغاز سے ہمارے ساتھ سفر کرتے آئے ہیں۔

Luc Ferry کی کتاب A Brief History of Thought انہی سوالوں کے سفر کی ایک دلچسپ کہانی ہے۔

مصنف بتاتا ہے کہ فلسفہ دراصل “زندگی کو سمجھنے کا فن” ہے۔ یہ محض نظریات کا مجموعہ نہیں، بلکہ جینے کا ایک انداز ہے۔ اس کے مطابق انسانی فکر ہمیشہ تین بڑے سوالوں کے گرد گھومتی رہی ہے:

  1. کائنات کیا ہے؟
  2. ہمیں زندگی کیسے گزارنی چاہیے؟
  3. موت اور فنا کے خوف سے نجات کیسے ممکن ہے؟

یہی تین سوالات فلسفے کے بنیادی ستون ہیں:
نظریہ، اخلاق اور نجات۔

کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ قدیم یونانی فلسفے نے سب سے پہلے عقل اور فطرت کے درمیان رشتہ قائم کیا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو نے سکھایا کہ دنیا کو سمجھنے کے لیے منطق اور غوروفکر ضروری ہیں۔

پھر مسیحی دور آیا، جس نے فلسفے میں ایمان، روحانیت اور محبت کے رنگ بھردیے۔ اس دور نے انسان کو بتا یا کہ وہ تنہا نہیں بلکہ خدا کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔

زمانہ بدلا تو انسانیت پرستی (Humanism) کا عروج ہوا۔ اب انسان خود مرکز بن گیا—اپنی عقل، تجربے اور آزادی کے ذریعے اپنی تقدیر طے کرنے والا۔

پھر نِطشے جیسے مفکر آئے، جنہوں نے اعلان کیا:
“خدا مر چکا ہے!”
یعنی پرانی اخلاقی بنیادیں اب سہارا نہیں دے سکتیں، اور ہمیں خود اپنے معنی تخلیق کرنے ہوں گے۔ یہاں سے فلسفہ ایک نئے راستے پر چل پڑا—وہ دور جسے آج پوسٹ ماڈرنزم کہا جاتا ہے، جہاں یقین کم اور سوال زیادہ ہیں۔

آج، جب انسان مصنوعی ذہانت، مشینوں اور ڈیجیٹل دنیا میں گھرا ہوا ہے، یہ کتاب یاد دلاتی ہے کہ سوچ کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس طوفان میں ہم اپنی انسانیت کو کیسے محفوظ رکھیں؟

Luc Ferry کے مطابق فلسفہ بھی مذہب کی طرح نجات کا وعدہ کرتا ہے—
مگر خدا کے ذریعے نہیں، بلکہ انسان کے اپنے شعور، ہمت اور فہم کے ذریعے۔
فلسفہ کہتا ہے: “خود کو پہچانو، اور اپنی فکر کی روشنی میں آزادی پاؤ۔”

نوجوانوں کے لیے یہ کتاب ایک دعوتِ فکر ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ فلسفہ کوئی خشک مضمون نہیں بلکہ زندگی کا ایک متعلقہ، ضروری اور متحرک علم ہے۔ یہ ہمیں سوال کرنے، سمجھنے اور بہتر انسان بننے کا راستہ دکھاتا ہے۔

آخر میں مصنف کا پیغام نہایت سادہ مگر گہرا ہے:

“زندگی تب ہی خوبصورت بنتی ہے جب ہم سوچنے سے نہیں ڈرتے۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *