میکدہ اور رازِ زندگی
شارق علی
ویلیو ورسٹی
کیمبریج میرے گھر سے بہت نزدیک ہے اور یہاں میرا اکثر آنا جانا رہتا ہے۔ یہاں کی قدیم پتھریلی گلیاں، خاموش دریا کے کنارے، چھوٹے چھوٹے کیفے، اور ان میں بسی ہوئی صدیوں پرانی خوشبو، سب کچھ دل کو چھو لینے والا ہے۔
پچھلے دنوں جب میں بینٹ اسٹریٹ سے گزر رہا تھا تو اچانک خیال آیا کہ یہ تو وہی راستہ ہے جہاں سائنس نے ایک تاریخی موڑ لیا تھا۔
چند قدم آگے چلا تو میں Eagle Pub کے سامنے کھڑا تھا۔
یہ وہ میکدہ ہے جو انسانیت کے ایک عظیم کارنامے، رازِ زندگی کی دریافت، کا گواہ بن چکا ہے۔
یہ فروری 1953 کی بات ہے۔ اُس زمانے میں کیمبریج کی Cavendish Laboratory دنیا کی سائنسی تحقیق کا مرکز تھی۔ اسی لیبارٹری میں دو نوجوان سائنس دان، جیمز واٹسن اور فرینسس کرک، زندگی کے سب سے بڑے معمے یعنی DNA کی ساخت پر کام کر رہے تھے۔
اور پھر وہ تاریخی دن آیا۔
طویل تحقیق، مسلسل بحث، اور بےشمار تجربات کے بعد بالآخر وہ شکل واضح ہوئی جو زندگی کی زبان لکھتی ہے،
ڈبل ہیلکس، دو دھاگوں کی وہ خوبصورت لٹ جس میں زندگی کا پورا کوڈ چھپا ہوتا ہے۔
یہ راز سمجھتے ہی فرینسس کرک اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔
وہ لیبارٹری سے نکلے، بینٹ اسٹریٹ پار کی، اور سیدھے Eagle Pub میں داخل ہو گئے؛ جہاں دوپہر کے وقت چند لوگ آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے اپنے مشروب سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
کرک نے بلند آواز میں وہاں بیٹھے اجنبی لوگوں سے مخاطب ہوکر اعلان کیا:
“We have found the secret of life!”
“ہم نے زندگی کا راز دریافت کر لیا ہے!”
اس لمحے وہاں موجود لوگوں کو شاید اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ جملہ آنے والے زمانوں میں حیاتیات، طب، جینیات اور انسانی خود شناسی کا راستہ بدل دے گا۔
آج بھی Eagle Pub کے اندر اُس لمحے کی یاد میں ایک تختی نصب ہے، اور لوگ اس کے ساتھ تصویریں کھنچوا کر جاتے ہیں۔
یہ محض ایک پب نہیں، بلکہ ایک ایسی کھڑکی ہے جہاں سے انسان نے پردہ ہٹا کر رازِ زندگی میں جھانکنے کی جرأت کی،
جہاں علم اور جستجو نے ہاتھ ملا کر اگلے دروازے کھول دیے۔
ایگل پب کی اس یادگاری تختی کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک خیال ابھرا:
کیا معلوم اگلا “رازِ زندگی” کیا ہوگا، اور کہاں دریافت ہوگا؟
