زمانے کی اجتماعی روح کا مورخ اور افتخار عارف کی شاعری
شارق علی
ویلیوورسٹی
یہ سن ستر کی دہائی کی بات ہے۔ میری عمر چودہ پندرہ برس کی تھی۔ محلے کے چند ہم عمر دوستوں کے ساتھ گلی میں ہر شام کرکٹ کھیلنا روز کا معمول تھا۔ انہی ہمجولیوں میں سے ایک دوست جمیل کے والد ریڈیو پاکستان میں کسی اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ جمیل کو علم تھا کہ مجھے شاعری کا شغف ہے اور ناصر کاظمی و فیض کا کچھ کلام مجھے ازبر ہے۔ ایک دن کھیل کے بعد غیر معمولی طور پر جمیل نے مجھے اپنے گھر چلنے کو کہا۔ پھر گیٹ سے باہر آ کر نہایت رازداری کے ساتھ مجھے فوٹو کاپی شدہ ایک مسودہ تھمایا۔ ان صفحات کی شیرازہ بندی پتلی رسی سے کی گئی تھی، جسے کراچی کی بولی میں ستلی کہا جاتا ہے۔ یہ افتخار عارف صاحب کا غیر مطبوعہ کلام تھا، جسے چند قریبی دوستوں میں اشاعت سے پہلے انتخاب کی غرض سے تقسیم کیا گیا تھا۔ میں نے اصرار کر کے جمیل کو راضی کیا کہ یہ مسودہ اپنے گھر لا کر پڑھ لوں۔
یہ بیش بہا خزانہ مجھے صرف دو دن میں پڑھ کر واپس کرنا تھا۔ اس دور کے بیشتر بچوں کی طرح میں افتخار عارف کو کسوٹی پروگرام کے حوالے سے تو جانتا تھا، لیکن یہ مسودہ ان کی شاعری سے میرا پہلا تعارف تھا۔ ان دو دنوں کے سرسری مطالعے نے ایک نو عمر دل پر گہرا اثر ڈالا۔ مسودے میں موجود نظموں اور غزلوں نے مجھے مسحور کر دیا۔ ان کی نظم بارہواں کھلاڑی تو مجھے ازبر ہو گئی۔
اب مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ چھوٹا سا واقعہ مجھے ایک بڑے اور سنجیدہ شاعر سے متعارف کرانے کا ذریعہ بنا۔
افتخار عارف کی شاعری روایت اور جدیدیت کے درمیان ایک پُل ہے۔ وہ کلاسیکی اردو کی تہذیبی بنیادوں سے جڑے رہتے ہیں، لیکن معاصر انسانی مسائل اور اجتماعی المیوں کو بھی اپنی نظم و غزل کا موضوع بناتے ہیں۔ ان کی شاعری محض عشقیہ جذبات کا کامیاب اظہار نہیں بلکہ ایک تہذیبی مکالمہ بھی ہے۔ اس مکالمے میں داخلی تنہائی، اجتماعی ناانصافی کا دکھ اور وجودی کرب کی اذیت نمایاں ہے۔
ان کے اشعار کبھی ذاتی دعا اور دکھ کے اظہار کی صورت اختیار کرتے ہیں اور کبھی بھرپور سماجی حقیقت کی علامت بن کر قاری کے دل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ خواہش کہ مادی مکان کو روحانی اور تہذیبی معنوں میں ’’گھر‘‘ بنایا جا سکے، ان کے دل میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
ان کی نظمیں اپنی انفرادیت کے ساتھ ایک الگ لہجہ اور آہنگ رکھتی ہیں۔ وہ عصرِ حاضر اور عام آدمی کا دکھ پوری شدت کے ساتھ سمیٹتی ہیں۔
ابھی کچھ دن لگیں گے
دل ایسے شہر کے پامال ہو جانے کا منظر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
جہانِ رنگ کے سارے خس و خاشاک
سب سرو و صنوبر پھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
تھکے ہارے ہوئے خوابوں کے ساحل پر
کہیں امید کا چھوٹا سا اک گھر
بنتے بنتے رہ گیا ہے
وہ اک گھر بھولنے میں۔۔۔۔۔۔
لکھنے والا اور کر بھی کیا کر سکتا ہے سوائے اس کے کہ اپنے جذب اور فن کی شدت کے ساتھ معاشرتی ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔ افتخار عارف کی شاعری نے یہ فرض بخوبی نبھایا ہے۔
ان کے اشعار نے عہدِ حاضر کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش بھی کی ہے اور قاری کو معاشرتی رویوں پر سوچنے پر مجبور بھی کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح کی ہے کہ معاشرتی زوال سے نکلنے کے لیے وقت، صبر اور قربانی درکار ہوتی ہے۔
ان کی شاعری میں اجتماعی زندگی کی تلخیوں کا اظہار بھی ہے اور امید کی کرن بھی۔
افتخار عارف کے معاصر ادیبوں نے ان کے فن کو تسلیم کیا ہے۔ احمد فراز نے انہیں ’’جدید اردو شاعری کا سنگِ میل‘‘ کہا۔ وزیر آغا نے ان کے ہاں وجودیت اور حقیقت کے امتزاج کی تعریف کی۔ منیر نیازی نے انہیں ’’اردو شاعری کا روشن ستارہ‘‘ قرار دیا۔
ان کے کلام میں ہجرت کا دکھ، داخلی تنہائی اور تہذیبی حوالہ جات اس شدت سے موجود ہیں کہ قاری کو اپنی ذات اور اپنے عہد کے کرب کا آئینہ دکھائی دیتا ہے۔
افتخار عارف شاعر ہیں، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی اصل ارزومندی اپنے زمانے کی اجتماعی روح کا مؤرخ بننے کی ہے۔
