اشبیلیہ کا چوک ,اندلس کہانی، پندرہویں اور آخری قسط
شارق علی
ویلیوورسٹی
میں سیویل، جو مسلمانوں کے دورِ اندلس میں اشبیلیہ کہلاتا تھا، کے وسیع و عریض مرکزی چوک میں کھڑا ہوں۔ میرے اوپر لکڑی کا ایک غیر معمولی ڈھانچہ آسمان کی طرف تتلی کے پروں کی طرح پھیلا ہوا ہے۔
پہلا تاثر یہی بنتا ہے کہ جیسے کوئی دیوہیکل تتلی اپنے پروں کے ساتھ اس چوک پر سایہ فگن ہے۔ یہ ہے میٹروپل پیراسول، جسے لوگ پیار سے لاس سیتاس یعنی مشرومز بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا لکڑی کا اسٹرکچر ہے، جرمن ماہرِ تعمیر یورگن مائر کا شاہکار، جو 2011 میں مکمل ہوا۔ دن میں یہ روشنی کو منعکس کر کے ایک جادوئی فضا پیدا کرتا ہے اور رات میں رنگ بدلتی روشنیوں کے ساتھ خواب ناک منظر پیش کرتا ہے۔
میں دوسری منزل کے چبوترے پر کھڑا ہوں، جہاں سے پورے چوک کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ نیچے ایک مارکیٹ ہے۔ ایک دکان میں خوشبو بکھیرتے پھول اور تازہ پھل سجے ہیں۔ قریب ہی آرکیالوجیکل میوزیم ہے، جس میں قدیم رومن اور مسلم اندلس کے آثار محفوظ ہیں۔ اوپر ایک واک وے ہے، جہاں سے پورے سیویل کا منظر ایک پینورامک تصویر کی صورت سامنے آتا ہے۔ میں چبوترے پر آہستہ آہستہ قدم رکھتا ہوں، اور اردگرد کے بنچوں پر بیٹھے لوگ، کھیلتے ہوئے بچے، محبت میں گم جوڑے اور کیفے کے مسافر سب زندہ اور متحرک تصویروں کی مانند میری یادداشت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
یہ چوک قدیم اور جدید کا حسین امتزاج ہے۔ اوپر مستقبل کی انجینئرنگ کا شاہکار سایہ فگن ہے اور چاروں طرف صدیوں پرانی گلیاں اور عمارتیں ہیں، جو تاریخ کے قصے سناتی ہیں۔ نوکیلے میناروں والے قدیم چرچ اور کیتھیڈرل، جن کے پتھروں میں رومی دور کے نشانات جھلکتے ہیں۔ درختوں پر لدے سنگترے، فضا میں بچوں کی ہنسی، اور بینچوں پر بیٹھے رفیقوں کی گفتگو—یہ سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی جھلک دکھاتے ہیں جو جدید بھی ہے اور اپنی روایت سے جڑا ہوا بھی۔
یہی ہے سیویل—اسپین کا چوتھا بڑا شہر، جسے سورج کی روشنی سب سے زیادہ نوازتی ہے۔ کبھی دریائے گوادالکیویر کے کنارے یہ ایک عظیم تجارتی مرکز تھا، اور اندلس کے سنہری دور میں اسے اشبیلیہ کہا جاتا تھا۔ اس وقت یہ علم و فن کا گہوارہ اور صنعت و تجارت کا مرکز تھا۔ اس کے باغات، محلات اور علمی ادارے یورپ بھر میں شہرت رکھتے تھے۔ مسلمانوں کے دور میں یہاں سے افریقہ اور یورپ تک تجارتی کشتیاں جاتی تھیں۔ آج بھی یہ شہر وہی ورثہ اپنے اندر سنبھالے ہوئے ہے۔
جب میں مشروم نما سایہ دار چھت کے نیچے کھڑا اردگرد کا منظر دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ صدیوں پہلے یہی سرزمین مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کی مشترکہ رہائش گاہ تھی۔ آج بھی یہ شہر اسی ہم آہنگی کی خوشبو دیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وقت کے پردے پر کردار بدل گئے ہیں، مگر انسانی جذبے، خواب اور تمنائیں ویسے ہی ہیں۔
اندلس کی سرزمین پر یہ ہمارا آخری دن ہے۔
ماضی اور حال کی سنگت پر رقص کرتا سیویل، یا اشبیلیہ، یاد دلاتا ہے کہ تہذیبیں معدوم نہیں ہوتیں بلکہ نئی شکلوں میں زندہ رہتی ہیں۔ یہی اندلس کہانی کا مرکزی خیال اور اصل داستان ہے۔
وقت بدلتا رہتا ہے، مگر انسانی جستجو، خواب دیکھنے کا حوصلہ اور حسن کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوتی۔
اشبیلیہ کے ماضی کی بازگشت اور سیویل کے حال کی دھڑکن کے سنگم پر اندلس کہانی مکمل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ اختتام