فلیمنکو تھیٹر، اندلس کہانی، تیرہویں قسط
شارق علی
ویلیوورسٹی
شام ڈھل رہی تھی جب ہم پہلے سے خریدے گئے ٹکٹس لیے “گا سا دی لا مموریا” کے دروازے پر پہنچے۔ دو تین صدی پرانی سنگلاخ عمارت کے باہر گلی میں خاصی چہل پہل تھی۔ زیادہ تر خواتین خاص اہتمام سے سجی سنوری آئی تھیں۔ یہاں کی ثقافت میں فلیمنکو کو وہی اہمیت حاصل ہے جو اٹلی اور آسٹریا میں اوپیرا کو۔ ہم کچھ پہلے پہنچ گئے، اس لیے سکون سے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیتے رہے۔ حاضرین خوش لباس اور پرجوش مگر نہایت مہذب تھے۔ عملہ باوردی اور خوش اخلاق تھا۔ ایک ملازم نے ٹکٹس دیکھ کر ٹارچ کی روشنی میں ہمیں ہماری نشست تک پہنچایا۔
یہ چھوٹا سا تھیٹر اپنی تاریخی اور ثقافتی جھلک کی وجہ سے بےحد دلکش تھا۔ اسٹیج لکڑی کا، تقریباً پندرہ فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا، زمین سے چند فٹ بلند۔ نشستوں کے لیے لکڑی کی کرسیاں اور بنچیں نیم دائرے میں سجی تھیں، صرف دو تین قطاروں کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ سو افراد کی گنجائش۔ دیواروں پر بڑی چھوٹی پینٹنگز، شیشے اور پرانا فرنیچر، سب ماحول کو منفرد بنا رہے تھے۔ اوپر ایک چھوٹی بالکونی بھی تھی جہاں سے لوگ پرفارمنس دیکھ سکتے تھے۔
مورخین کے مطابق فلیمنکو کی جڑیں صرف اندلس تک محدود نہیں۔ صدیوں پہلے ہندوستان کے راجستھان اور پنجاب کے خانہ بدوش قبیلے، جنہیں آج “جپسی” یا “رومانی” کہا جاتا ہے، ایران، مصر اور شمالی افریقہ سے ہوتے ہوئے اسپین پہنچے۔ وہ اپنے ساتھ طبلے کی تھاپ، دلسوز لے اور دل کو چھو لینے والے گیت لائے۔ یہی روایت آگے چل کر فلیمنکو کی بنیاد بنی، اسی لیے اس فن میں کہیں نہ کہیں ہندوستان کی دھڑکن محسوس ہوتی ہے۔ اندلس میں یہ روایت عربی موسیقی، یہودی نغموں اور عیسائی سازوں سے ملی تو ایک نیا اور جاندار انداز وجود میں آیا۔
پرفارمنس شروع ہوتے ہی ہال میں جادو سا چھا گیا۔ پہلے گٹار کی ہلکی دھنیں، پھر تالیوں کی لے، اور آخر میں رقاصوں کے جوتوں کی دھمک۔ لکڑی کے فرش پر قدموں کی ٹھک ٹھک پورے ہال کو گونج سے بھر دیتی۔ مرد و خواتین رقاص اپنے رنگین، بھاری ملبوسات میں باری باری یا اکٹھے اسٹیج پر آتے۔ ان کے رقص کے ساتھ گٹار کی دھنیں، گلوکاروں کی بھرپور آوازیں اور تماشائیوں کی جانب سے وقفے وقفے سے ابھرتی صدا “اولے!” مل کر وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی۔
فلیمنکو محض رقص نہیں، انسانی جذبات کا بھرپور اظہار ہے۔ غم، خوشی، احتجاج اور جنون سب ایک ہی پرفارمنس میں سمٹ آتے ہیں۔ یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔ اس فن کا مرکزی نکتہ اس کا “کمپاس” ہے، یعنی بارہ تالوں پر مشتمل دائرہ، جو سامع کو وجد میں لے جاتا ہے۔ اسپین میں اسے “دوینڈے” کہا جاتا ہے، وہ لمحہ جب فنکار اور ناظر دونوں ایک روحانی کیفیت میں کھو جاتے ہیں۔
آج فلیمنکو چھوٹے اندلسی “ٹبلاو” تھیٹروں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ حیرت انگیز طور پر جاپان میں فلیمنکو اسکول اسپین سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ فن صدیوں کی ہجرت، تہذیبوں کے میل جول اور موسیقی کے امتزاج کا زندہ ثبوت ہے۔۔۔۔۔ جاری ہے