Skip to content
Home » Blog » الکازار پیلس ، اندلس کہانی

الکازار پیلس ، اندلس کہانی

  • by

الکازار پیلس ، اندلس کہانی
بارہویں قسط

شارق علی
ویلیو ورسٹی

ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں ناشتہ کرنے داخل ہوئے تو ماحول میں مہذب گہما گہمی تھی۔ مقامی اور غیر مقامی سیاحوں کی چہل پہل، کشادہ میزوں پر پرتکلف ناشتے کے انتظامات، بیکری کارنر سے اُٹھتی تازہ تیار شدہ لوازمات کی اشتہا انگیز مہک اور کافی کی تیز خوشبو۔ ایک ٹرے میں قدرتی حالت میں چھتے سمیت رکھا تازہ شہد جسے باسانی چمچے سے نکالا جا سکتا تھا۔ سب سے دل موہ لینے والا منظر وہ کونے کی میز تھی جہاں ہسپانیہ کے رنگا رنگ تازہ پھل خوبصورتی سے سجائے گئے تھے۔ انگور کے خوشے، نارنجی کے چھلکتے رنگ، سیب، ناشپاتی، چیریز، سٹرابیری، تربوز اور خربوزے کا دلکش انتخاب۔ ہر شے خوش ذائقہ اور دلکش۔

مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی اندلس کی سرزمین نے ایک عظیم زرعی انقلاب دیکھا۔ عربوں نے یہاں مربوط نہری نظام قائم کیا، کنالیں کھود کر پانی کی تقسیم کا نیا طریقہ متعارف کروایا۔ اس کے نتیجے میں زیتون، انگور، گندم اور ترکاریوں کی پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ عرب علمِ زراعت نے مقامی کسانوں کو نئے اوزار، تکنیکیں اور فصلیں دیں۔ کھجور اور چاول بھی انہی دنوں اندلس کی زمین پر جڑ پکڑنے لگے۔

یہ سب صرف کھیتی باڑی کی ترقی نہ تھی بلکہ ایک تہذیبی انقلاب تھا۔ اندلس کی زرخیز زمینیں یورپ کے باقی ملکوں کے لیے مثال بن گئیں۔ یہاں سے علم، تجربہ اور ذائقہ پورے یورپ تک پھیلا۔

آج جب ہم ناشتے میں ان تازہ پھلوں کا ذائقہ چکھ رہے ہیں تو یوں سمجھیے کہ جیسے صدیوں پرانی اُس محنت اور دوراندیشی کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہوں جس نے اندلس کو باغ و بہار بنا دیا تھا۔

ناشتہ ختم کر کے ہم ہوٹل کی سیڑھیاں اترے اور سیویل کی گلیوں میں الکازار (القصر) پیلس کی سمت پیدل چل پڑے۔ سیوایل کی سڑکوں کے کنارے اورنج اور لیموں کے پھلوں سے لدے درخت عام دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ پھل کھانے کے قابل تو نہیں ہوتے، لیکن اُن کی رنگت اور دلکشی دیکھ کر ہسپانیہ کی زرخیزی پر یقین ضرور آ جاتا ہے۔ مقامی لوگ ان لدے پھندے درختوں کے قریب سے بے نیازی سے گزرتے دکھائی دیے۔ بازار میں کچھ دکاندار اپنے شو کیس سجا رہے تھے اور کیفے کے باہر بیٹھے چند لوگ کافی کے مگ ہاتھوں میں لیے گپ شپ میں مصروف تھے۔

رونق اور چہل پہل سے بھرپور ایسے ہی مناظر کے درمیان سے گزرتے ہم بالآخر القصر پیلس کے مرکزی دروازے کے سامنے واقع فوارے تک جا پہنچے۔ یہاں ہمیں اپنے ٹور گائیڈ سے ملنا تھا۔ ٹور دوپہر ایک بجے شروع ہونا تھا مگر ہم پندرہ منٹ پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔

ہم گرینائٹ سے بنی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ فوارے کی ہلکی پھوار ہوا کے جھونکوں کے ساتھ کبھی کبھار ہمیں شرارت سے چھو لیتی۔ اردگرد سیاحوں کے دیگر گروہ بھی جمع ہونے لگے۔ گویا کئی ٹورز اسی مقام سے شروع ہونا تھے۔

کچھ ہی دیر میں ہماری کمپنی کی گائیڈ نمودار ہوئی۔ ایک ہنستی مسکراتی یونیورسٹی میں تاریخ پڑھنے والی طالبہ، ہاتھ میں لمبی سی پھول دار چھتری اور گلے میں شناختی کارڈ ڈالے۔ اُس نے مختصر سے تعارف اور ہدایات کے بعد اشارہ کیا: “میرے پیچھے بلکہ اس دور سے نظر اتی اٹھائی ہوئی چھتری کے پیچھے پیچھے چلے ائیے۔”

محل کے مرکزی دروازے کے سامنےسیاحوں کی لمبی سی قطار لگی تھی۔ ہماری گائیڈ نے چیف گارڈ آفیسر کو کمپنی کا کارڈ دکھایا اور سرگوشی میں کچھ بات کی۔ فوراً ہمارے گروپ کے لیے ایک الگ دروازہ کھول دیا گیا۔ ہم تیزی سے اندر داخل ہو گئے، کیونکہ ہمارے ٹور پیکج میں خصوصی انٹرنس ٹکٹ شامل تھا۔

اندر قدم رکھتے ہی فضا کم از کم مجھے تو عربی اندلس کے سنہرے دور سے جُڑی ہوئی محسوس ہوئی۔

ہم “شیر والے دروازے” (Puerta del León) سے اندر داخل ہوئے۔ یہ دروازہ کبھی مسلم حکمرانوں کی شان و شوکت کی علامت ہوا کرتا تھا۔ اتنا کشادہ کہ ایک بگھی با آسانی گزر سکے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں امراء گھوڑوں پر سوار داخل ہوتے تھے جبکہ عام رعایا پیدل۔ آگے جا کر گھوڑے ملازمین کے حوالے کر دیے جاتے اور دربار میں پیش ہونے والے لوگ ایک بڑے کمرے میں (اسے دیوانِ عام کہ لیجیے) اپنی تیاری مکمل کرتے۔ پھر لاے ہوے نذرانے سمیت بادشاہ کے سامنے حاضری دی جاتی۔

مرکزی عمارت کی جانب آگے بڑھے تو ایک کشادہ صحن نظر آیا۔ یہاں کسی زمانے میں عبادی فرمانروا اہم مہمانوں کا استقبال کیا کرتے تھے۔ پتھریلی دیواریں، محرابوں کی نقاشی اور عربی کتبات آج بھی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں اسلامی فنِ تعمیر کسی زمانے میں اپنے عروج پر رہا۔

گائیڈ نے بتایا کہ موجودہ محل کی اصل روح وہ حصہ ہے جو ابو عبداللہ محمد بن عباد نے تعمیر کروایا تھا اور بعد میں الموحَد حکمرانوں نے اسے وسعت دی۔ یہیں سے مدیخار طرز نے جنم لیا۔ یعنی اسلامی فنِ تعمیر اور بعد کے عیسائی اضافوں کا حسین امتزاج۔ عربی خطاطی، نازک گچ کاری اور سبز و نیلی سرامک ٹائلوں کی جھلک آج بھی مسلم کاریگروں کی مہارت کا کمال ہے۔

سب سے دلکش منظر “صحنِ دوشیزگاں” (Patio de las Doncellas) کا تھا: سامنے لمبا حوض اور اردگرد جھکی ہوئی محرابیں۔ ہر دیوار عربی عبارتوں اور جیومیٹریک ڈیزائن سے مزین، جیسے ہر اینٹ ماضی کی گواہ ہو۔

ہم “ہال آف ایمبیسیڈرز” بھی پہنچے، وہی دیوانِ خاص جہاں اندلسی خلفاء سفیروں اور نمائندوں سے ملاقات کرتے تھے۔ اوپر سنہری گنبد، نیچے ازلیخو ٹائلوں کی بہار اور تین سمتوں میں کھلتی محرابیں۔ اسلامی ہنر اور فن تعمیر کی روشن جھلک۔

گائیڈ نے ہمیں بادشاہ کے ذاتی کمروں، شاہی باورچی خانے اور مرایا دے پادیا کے حمام بھی دکھائے۔ ان حماموں میں پانی اور روشنی کا نظام عرب انجینئرنگ کی مہارت کی مثال ہے۔ محرابی راہداریوں میں نمی بھری ہوا اور مدھم روشنی آج بھی صدیوں پرانی کہانیاں سناتی ہے۔

القصر کے باغات بھی مسلمانوں ہی کی یادگار لگتے ہیں۔ نہریں، حوض، پھلدار درخت اور فضا میں رچی سنگترے کی خوشبو۔ یہ سب عربوں کے دیے ہوئے زرعی ورثے کی جھلک ہی تو ہے۔

قدم بہ قدم یوں لگتا تھا جیسے القصر محض ایک محل نہیں بلکہ اندلسی تہذیب، فنِ تعمیر اور علم و ہنر کی ایک کھلی کتاب ہے۔ آج یہ محل یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ ہے۔

اندلس کے اُن دنوں کی یادگار جب یہاں فلسفے کی بحثیں، فنونِ لطیفہ کی محافل، زرعی انقلاب اور عرب روایات ایک ساتھ زندہ تھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *