Skip to content
Home » Blog » دلکش گلیاں، اندلس کہانی، گیارہویں قسط

دلکش گلیاں، اندلس کہانی، گیارہویں قسط

  • by

دلکش گلیاں، اندلس کہانی، گیارہویں قسط

شارق علی،
ویلیو ورسٹی

رات کے تقریباً آٹھ بج رہے تھے جب ہماری کوچ قرطبہ سے واپسی پر سوایل (Seville) کے مضافات میں داخل ہوئی۔ کشادہ کھڑکیوں سے شہر کی روشنیوں کی جھلک اور گلی کوچوں کی مسکراتی رونق صاف دکھائی دے رہی تھی۔ ایک مقام پر کوچ رکی تو میں نے موقع غنیمت جان کر گائیڈ سے سٹی سینٹر میں کسی اچھے حلال ریسٹورنٹ کا پوچھا۔

وہ مسکرا کر بولا:
“فیض (Fez)، ایک مراکشی ریستوران، تمہیں ضرور پسند آئے گا۔”

نام سنتے ہی دل خوش ہوگیا۔ غالب، رومی اور فیض کی تہذیبی خوشبو کا خیال، اور ساتھ ہی اچھے ذائقے کی توقع۔

کچھ دیر بعد کوچ شہر کی ایک مصروف شاہراہ پر پانچ ستاروں والے ہوٹل کے سامنے رکی۔ چند مسافر اتر گئے۔ گائیڈ نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں فیض کی سمت بتای۔ ہم نے الوداع کہا اور گوگل میپ کے سہارے اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔ رات کی خوشگوار ہوا کا ساتھ لیے پہلے تو مصروف بازاروں سے گزرے، پھر نسبتاً سنسان مگر دلکش اندرونی گلیوں میں آ نکلے۔

یہ تنگ گلیاں، رنگین عمارتیں، سائے دار بالکونیاں اور محبت بھری فضا، ایک تہذیبی دلکشی کا جیتا جاگتا منظر پیش کر رہی تھیں۔ کہتے ہیں یہاں گلیاں اس لیے تنگ بنائی جاتی تھیں کہ گرمی سے بچاؤ ہو اور رہائش میں قربت بڑھے۔ اکثر عمارتیں سفید رنگ اور خوبصورت ٹائلوں سے مزین تھیں، جن میں اسلامی اور مسیحی فنِ تعمیر کا حسین امتزاج جھلکتا تھا۔

یہیں کہیں Alcázar پیلس کی قریبی گلیوں میں واشنگٹن اِروِنگ (1783–1859) نے بھی قیام کیا تھا۔ امریکی سفارتکار اور ادیب اِروِنگ کو عالمی شہرت ان کی تصنیف Tales of the Alhambra سے ملی۔ اسپین میں قیام کے دوران وہ سانتا کروز کی ایک تنگ مگر دلکش گلی، Callejón del Agua میں رہے، جو آج بھی اپنی رومانوی فضا اور تاریخی دلکشی کے لیے مشہور ہے۔ انہوں نے اندلس کی گلیوں، قلعوں اور عربی ورثے کو اپنی تحریروں میں امر کر کے سیوایل کو یورپی تخلیقی یادداشت کا حصہ بنا دیا۔

ان گلیوں میں عجیب سی اپنائیت تھی۔ دونوں طرف چھوٹے گھر، پتھروں کی دیواروں پر چڑھی بیلیں، اور کھڑکیوں سے جھانکتی خوش ذوق سجاوٹ۔ راہ چلتی عورتوں کو پُراعتماد انداز میں گھومتے دیکھ کر محسوس ہوتا کہ یہ شہر اپنے باسیوں کو مکمل تحفظ دیتا ہے۔

بالآخر ہم فیض ریستوران پہنچے، جو ایک مراکشی شہر کے نام پر قائم تھا۔ مرکزی مقام پر واقع یہ ریستوران نہایت سلیقے سے سجا ہوا تھا۔ کاؤنٹر کے پیچھے باادب عملہ، خوش اخلاق ویٹر، اور قرینے سے لگی میز کرسیاں خوشگوار تاثر دے رہی تھیں۔

ہم نے ایک پرسکون گوشہ چن لیا۔ ماحول خوشبوؤں سے مہک رہا تھا۔ روایتی مراکشی مٹی کے برتنوں سے اُٹھتی بھاپ، زعفران، زیرہ اور دھنیے کی ملی جلی خوشبو، اور کہیں ہلکی سی دارچینی کی مہک۔

میں نے چکن تجین منگوایا۔ مراکشی پکوان جو مخروطی ڈھکن والے مٹی کے برتن میں آہستہ آہستہ دم پخت ہو کر تیار ہوتا ہے۔ گوشت نرم اور لذیذ، لیموں کے ترش ذائقے اور زیتون کی ہلکی کڑواہٹ کے ساتھ مل کر ایک نیا ذائقہ تخلیق کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ کشمش اور بادام سے سجی ہلکی میٹھی کُسکُس، تازہ سلاد اور گرم روٹی بھی تھی۔ ہر نوالہ ذائقے اور خوشبو کا الگ تجربہ تھا۔

میٹھے میں بکلاوہ آیا۔ پستے اور شہد سے بھری پرت دار مٹھائی، جو گرم چائے کے ساتھ اور بھی لذیذ لگ رہی تھی۔

کھانے کے بعد ہم دوبارہ سیوایل کی گہماگہمی میں نکل پڑے۔ مرکزی حصے کی روشن دکانیں، گٹار پر ہسپانوی دھنیں بجاتے موسیقار، اور کہیں فنکار اپنی تصویریں بیچتے نظر آتے۔ کچھ دیر گھومنے کے بعد ہم نے ٹیکسی لی اور ہوٹل لوٹ آئے۔ اگلا دن خاصا مصروف تھا۔ کل ہمیں فلیمنکو شو دیکھنا تھا، جس کے بغیر سیوایل اور اندلس کا سفر نامکمل رہتا۔

۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *