Skip to content
Home » Blog » مسجدِ قرطبہ ،اندلس کہانی، دسویں قسط

مسجدِ قرطبہ ،اندلس کہانی، دسویں قسط

  • by

مسجدِ قرطبہ ،اندلس کہانی، دسویں قسط

✍️ شارق علی
ویلیوورسٹی

ہم مسجد کی بیرونی دیوار کے ساتھ کھڑے اپنے گائیڈ پیڈرو کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ منتظمین کو پورے گروپ کا اجتماعی ٹکٹ دکھا چکا تو ہم سب ایک ساتھ مسجد کے اندرونی حصے میں داخل ہوئے۔ پھر اس نے ہمیں انفرادی طور پر گھوم پھر کر مسجد کے مختلف حصے دیکھنے کی اجازت دی اور واپسی کے لیے بیرونی دروازے پر دوبارہ ملاقات کا وقت دیا۔

جب عبدالرحمٰن داخل نے قرطبہ کو اپنی نو قائم شدہ اموی حکومت کا دارالخلافہ بنایا، تو اس کی نگاہوں میں ایک ایسی مسجد کا خواب تھا جو نہ صرف عبادت گاہ ہو بلکہ اس کی تہذیبی شناخت کا پائیدار نشان بھی بنے۔ جہاں آج مسجد قرطبہ واقع ہے، اس مقام کی کہانی بہت پرانی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہاں سب سے پہلے ایک رومن مندر موجود تھا، جو سورج دیوتا کو سجدہ کرنے والوں کا مرکز تھا۔ وقت کی گرد نے اسے مٹا دیا، اور بعد کے زمانوں میں عیسائیوں نے اسی جگہ ایک گوتھک چرچ تعمیر کیا، جسے San Vicente کے نام سے جانا جاتا تھا۔

عبدالرحمٰن داخل نے اس مقام کا کچھ حصہ خرید کر اور کچھ حکومتی اختیار سے حاصل کر کے 784ء میں مسجد قرطبہ کی بنیاد رکھی۔
کہا جاتا ہے کہ مسجد کی تعمیر پر اس زمانے میں اسی ہزار درہم لاگت آئی، جو ایک خطیر رقم تھی۔ دو سال میں مسجد کی تعمیر کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔

عبدالرحمٰن داخل اس مسجد سے گہری عقیدت رکھتا تھا۔ روایت ہے کہ وہ ذاتی طور پر تعمیر کی نگرانی کیا کرتا تھا، اور ستونوں کی ترتیب، محرابوں کی ساخت، حتیٰ کہ سنگِ مرمر کے انتخاب میں بھی شامل ہوتا۔ اس کا خواب ایک ایسی جگہ تخلیق کرنا تھا جو روحانی سکون فراہم کر سکے۔

ہم جیسے ہی مسجد کے احاطے میں داخل ہوئے تو سامنے ستونوں کا ایک سمندر تھا۔ 856 ستون۔ سنگِ مرمر، گرینائٹ، اور جیپسم سے بنے، قطار در قطار کھڑے تھے، جیسے کسی خاموش عبادت میں مصروف ہوں۔ ان ستونوں پر قائم دوہرے محرابوں کا ایک ایسا جال کہ نظریں الجھ کر رہ جائیں۔ ہر محراب اپنی محرابی پیشانی کے ساتھ گویا ایک فریم میں بند کھجور کے درخت کا عکس معلوم ہو۔

یہ “کھجورستانی طرزِ تعمیر” شام کے مناظر سے لیا گیا تھا۔ وہی مقام جہاں عبدالرحمٰن کا بچپن گزرا تھا۔ ہر محراب گھوڑے کی نعل جیسی، اور ہر ستون جیسے کسی پرانی یاد کا سنگی گواہ۔

تعمیراتی حسن کا ماہرانہ کمال یہ تھا کہ روشنی اور سائے کی آنکھ مچولی مسجد کے اندر جاری رہتی۔ جیسے یہ انتظام فطرت نے خود ترتیب دیا ہو۔ بلند چھتیں اور ہوادار روشندان ہر لمحہ فضا کو تازہ رکھتے۔ نہ کہیں گھٹن کا احساس، نہ شور۔ صرف ایک روحانی گونج، جو مؤذن کی اذان کے ساتھ دلوں میں اترتی چلی جاتی ہو گی۔

مسجد کی فضا میں بین المذاہب عقیدت مندی کا احساس تھا۔

ہم مختلف حصوں میں گھومتے پھرتے اس مقام تک آ پہنچے جہاں عبدالرحمٰن داخل اپنے محل سے خفیہ سرنگ کے ذریعے آ کر فجر کی نماز کی امامت کیا کرتا تھا۔

اب ہم منبر کے سامنے بنے جنگلے کے ساتھ کھڑے تھے۔ سنگِ مرمر سے تراشا ہوا اسلامی فنِ تعمیر کا جیتا جاگتا مظہر۔ پیچھے گنبد پر قرآنی آیات کندہ تھیں، اور کچھ مقامات پر انہیں مٹا دیا گیا تھا۔

منبر پر امام کے کھڑے ہونے کی جگہ بلند اور روشن تھی، اور ہر زاویے سے نظروں کے سامنے۔ غالباً یہی وہ مقام تھا جہاں عبدالرحمٰن داخل خفیہ سرنگ کے ذریعے آتا، نماز پڑھاتا، اور واپس چلا جاتا۔

جب قرطبہ اور پھر غرناطہ پر مسلمانوں کی حکمرانی ختم ہوئی تو 1236ء میں عیسائیوں نے قرطبہ پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد مسجد میں تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ ابتدائی طور پر مسجد ہی کی حدود میں چرچ کے عناصر شامل کیے گئے۔ پھر سولہویں صدی میں ایک عظیم گوتھک کیتھیڈرل مسجد کے وسط میں تعمیر کر دیا گیا۔ وہ مقام جو کبھی اذانوں سے جاگتا تھا، اب گھنٹیوں کی آواز سے گونجنے لگا۔

مسجد کے مختلف حصوں میں گھومتے ہوئے کہیں عیسائی تعمیرات کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور کہیں اسلامی باقیات۔ یہ دو تہذیبوں کی آنکھ مچولی تھی، جو ایک ہی چھت کے نیچے صدیوں جاری رہی۔

پھر ہم مسجدِ قرطبہ کے عین وسط میں تعمیر شدہ کیتھیڈرل میں پہنچے۔ یہ 1523ء میں، چارلس پنجم (Charles V)، ہولی رومن ایمپرر، کی حکمرانی کے زمانے میں تعمیر کی گئی تھی۔
کہتے ہیں بعد میں خود چارلس پنجم نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

اس کیتھیڈرل کا طرزِ تعمیر گوتھک، رینےسانس، اور باروک طرز کے حسین امتزاج کا مظہر ہے۔ اندرونی آرائش میں بلند محرابیں، دلکش ستون، رنگ برنگی شیشوں کی کھڑکیاں، اور عیسائی علامات سے مزین لکڑی کی کندہ کاری شامل ہے، جو مسجد کے اسلامی فنِ تعمیر کے ساتھ ایک عجیب مگر دلکش تضاد پیدا کرتی ہیں۔

یہ کیتھیڈرل آج بھی عبادت کے لیے فعال ہے، اور قرطبہ کی اس عظیم عمارت کو ایک بین الثقافتی یادگار بنا دیتی ہے۔

ہم تقریباً دو گھنٹے اس جادوئی عمارت کی سیر میں مصروف رہے۔ پھر ہم اسی احاطے میں کھلنے والے مگر دوسری سمت کے دروازے سے باہر نکلے۔۔۔

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *