Skip to content
Home » Blog » قریش کا باز، اندلس کہانی، نویں قسط

قریش کا باز، اندلس کہانی، نویں قسط

  • by

قریش کا باز، اندلس کہانی، نویں قسط

✍️ شارق علی
ویلیوورسٹی

دوپہر کے دو بجے ہم مسجد قرطبہ کے احاطے کی دیوار کے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔ گروپ اکٹھا ہوا تو ہم مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ سپینش نوجوانوں کی ہما ہمی سے بھرپور گلی کی ہنگامہ خیزی کو پیچھے چھوڑ کر مسجد کے احاطے کی خاموشی میں آنا ایک عجیب سی داخلی تبدیلی کا احساس دے رہا تھا۔ گویا آوازوں سے بھرپور منظر اچانک خاموشی میں ڈھل گیا ہو۔

فصیلی دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک کشادہ باغ ہماری نگاہوں کے سامنے تھا۔ دھوپ میں نہاتے کھجور اور زیتون کے درختوں کے سائے میں سنگ مرمر کی راہداریاں تھیں، جو مسجد کی مرکزی عمارت کی طرف جاتی تھیں۔ انہی راہداریوں پر چلتے ہوئے ہم مسجد کی داخلی دیوار کے ساتھ آ کھڑے ہوئے۔ پیڈرو مرکزی عمارت میں ہمارے داخلے کی کارروائی میں دو چار منٹ مصروف رہا۔ ہم نے باغ کی کشادگی اور فصیلی دیوار کی سمت نظر دوڑائی تو ایک کونے میں ایک بلند و بالا مینار دکھائی دیا۔

غور سے دیکھا تو یہ صرف ایک مینار نہ تھا، بلکہ ایک تاریخی دستاویز تھا۔ صدیوں پر محیط کہانیاں اپنے اندر سموئے ہوئے۔ بنیادوں پر نظر کی تو رومن طرزِ تعمیر کے آثار نمایاں تھے: سیدھی لکیریں، چوڑے چٹانی پتھر، اور ایک مخصوص رومن استحکام۔ مینار کے درمیانی حصے کو دیکھا تو مسلم دور کی محرابیں، جھروکے، اور روایتی اسلامی نقش و نگار نمایاں نظر آنے لگے۔

سب سے اوپری حصے پر صلیبی دور کی گھنٹیاں ایک نئے دور اور نئی تاریخ کا اعلان کرتی محسوس ہوئیں۔ گویا یہ مینار تاریخ کی وہ خاموش دستاویز ہے جس کا ہر باب مختلف ادوار اور تہذیبوں کا قصہ سناتا ہے۔

مینار کی سمت دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں عبدالرحمٰن داخل کا نام ابھرا۔ وہ نوجوان شہزادہ، جو اموی خلافت کے زوال کے وقت دمشق سے زندہ بچ نکلا تھا۔ عباسی درندوں سے جان بچاتے ہوئے وہ دریائے فرات پار کرتا ہے۔ وہ جس نے اپنے بھائیوں اور خاندان کی قتل و غارتگری خود اپنی آنکھوں سے دیکھی، اور پھر سالہا سال بے وطن اور تنہا سفر کرتا رہا۔ افریقہ کے بیابان، مصر، فلسطین، اور پھر مراکش کی سرزمین۔

چار سال کی طویل جدوجہد کے بعد وہ بالآخر اندلس پہنچا۔ یہاں عرب قبائل کی آپسی دشمنیوں اور سیاست کو سمجھا۔ اپنے تدبر اور فہم سے انہیں متحد کر کے 755ء میں قرطبہ میں قدم جمائے۔ یہی وہ شہزادہ تھا جس نے اندلس میں ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ قرطبہ کو دارالحکومت بنایا اور مسجد قرطبہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔

مسجد قرطبہ عبدالرحمٰن داخل کا عشق تھی۔ اس نے اس مسجد کو صرف عبادت کی جگہ نہیں بلکہ اسلامی تہذیب کا استعارہ بنا دیا تھا۔ وہ بذاتِ خود اس مسجد میں ایک خفیہ راستے سے آتا، فجر کی نماز پڑھاتا، اور پھر خامشی سے واپس چلا جاتا۔ خطرات کے باوجود اپنے لوگوں سے جڑا رہا، محل میں قید نہ ہوا۔

مسجد کی تعمیر کا آغاز 784ء میں ہوا۔ ستون در ستون، کھجور کے درختوں سے متاثر فنِ تعمیر، سنگِ مرمر کی محرابیں، اور دیواروں پر خوشخط قرآنی آیات ، یہ سب اس کے جمالیاتی ذوق اور دلی وابستگی کی گواہی دیتے ہیں۔

مورخین لکھتے ہیں کہ جب وہ اس مسجد کی محراب میں تنہا بیٹھتا، تو اسے دمشق کی گلیاں، بھائیوں کی دردناک چیخیں، دریا کے کنارے کا وہ منظر، اور صحراؤں کی تھکن یاد آتی۔ یہ مسجد اس کے لیے فقط تعمیراتی منصوبہ نہ تھی یہ اس کی روح کی پناہ گاہ تھی۔

ہم ابھی مسجد کی مرکزی عمارت میں داخل ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے احاطے کے باغ کی خاموشی، مسجد کی دیواروں کے سائے، اور مینار کی سربلندی عبدالرحمٰن داخل کی عظمت کو سلام پیش کر رہے ہوں۔ وہ شخص جو زخموں سے چور ہونے کے باوجود فاتح بن کر ابھرا جسے تاریخ نے صقرِ قریش کے لقب سے یاد رکھا۔

یہ باوقار لقب اسے اس کے سیاسی تدبر، عزم، اور غیر معمولی قیادت کی صلاحیتوں کے اعتراف میں دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ یہ لقب اس کے دشمن، عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی بطور تحسین استعمال کیا، جب اس نے کہا:

“یہ نوجوان اگر میرے پاس آتا تو میں اسے اپنی آنکھوں کا نور بنا لیتا۔ وہ واقعی قریش کا باز ہے۔”

باز کو عربی شاعری اور ادب میں جفاکش، بلند پرواز، اور موقع شناس شکاری کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور یہی صفات عبدالرحمٰن میں بھی نمایاں تھیں۔ اموی خلافت کے زوال کے بعد وہ اکیلا اندلس پہنچا، اور اپنے علم، فراست، اور سیاسی حکمتِ عملی کی بدولت قرطبہ میں ایک نئی اور مستحکم اموی سلطنت کی بنیاد رکھی جو اگلے تین سو سال تک قائم رہی۔

۔۔۔جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *