عقل و جمال، پانچویں قسط، اندلس کہانی
شارق علی
ویلیو ورسٹی
ہم سمیت سب سیاح اپنے گائیڈ پیڈرو کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے رومن پل عبور کر رہے تھے۔ ہمارے قدموں تلے دریا کا پانی سست رفتاری سے بہہ رہا تھا۔ اس بظاہر پُرسکون منظر نے نہ جانے ماضی میں کتنی قیامتیں دیکھی ہوں گی۔ انگنت حملہ آوروں نے یہی دریا عبور کر کے شہر پر قبضے کی کوشش کی ہو گی۔ یہ دریا، قلعہ بند مسجد اور قرطبہ شہر کا قدرتی محافظ بن کر صدیوں سے یوں ہی بہہ رہا ہے۔ نہ جانے کتنے حملہ آوروں کا خون اس دریا کے پانی نے اپنے سینے میں جذب کیا ہو گا۔ ایک عجیب سی بے دلی کی کیفیت میں ہم اس پل پر سے گزرے۔
پل عبور کرتے ہی ہم پہلے ایک جدید طرز کی عمارت میں واقع وزیٹرز سینٹر میں داخل ہوئے۔ یہاں پیڈرو نے ہمیں پندرہ منٹ آرام کا وقفہ دیا۔ وزیٹرز سینٹر میں تازہ دم ہونے کی تمام سہولیات مہیا تھیں۔ معلوماتی کتابچے، کافی اور سنیکس کی دکانیں، اور صاف ستھرے واش رومز سب ہی موجود تھا۔
وقفے کے بعد ہم سب قرطبہ کی تاریخی گلیوں کی سمت روانہ ہوئے۔
وزیٹرز سینٹر سے باہر نکلتے ہی ایک کشادہ چوک تھا۔ اردگرد ریستورانوں اور دکانوں کی قطاریں تھیں۔ چوک کے ایک کونے میں ایک اونچے سے مینار پر ایک مجسمہ نصب تھا۔ پیڈرو نے بتایا کہ یہ سینٹ رفائل کا مجسمہ ہے۔
شہر کے عیسائی عقیدے کے مطابق یہ صاحب قرطبہ کے محافظ اور شفا بخش مانے جاتے ہیں۔ گویا ان کی وہی حیثیت ہے جو ہمارے شہر کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کی ہے۔ شاہ غازی نے طوفانوں کو روک رکھا ہے اور سینٹ رفائل نے بلیک ڈیتھ کے زمانے میں لوگوں کو اس وبا سے محفوظ رکھا اور انہیں شفایاب کیا تھا۔ آج بھی بہت سے مقامی لوگ ان کے مجسمے کے سامنے رک کر خاموش دعائیں مانگتے ہیں۔
پھر ہم چوراہے سے آگے نکل کر قرطبہ شہر کے قدیم حصے میں داخل ہوئے۔
کہیں تنگ، لیکن بیشتر جگہوں پر خاصی کشادہ، پتھروں کے فرش والی گلیاں، صاف ستھری اور جا بجا پھولوں سے آراستہ۔ ارد گرد تاریخی طرز کے چھوٹے بڑے مکانات۔ فرش پر گڑے عمر رسیدہ قدیم پتھر، جیسے وقت ان میں ٹھہر سا گیا ہو۔ میں نے سوچا، ابن رشد بھی تو یہیں کا تھا، شاید وہ بھی کبھی ان گلیوں سے میری طرح پیدل گزرا ہو گا۔ علم و دانش اور عقل و عقیدے کا امام ابن رشد۔
ابو الولید محمد ابن احمد ابن رشد، 1126ء تا 1198ء، وہ قرطبہ کے عظیم ترین فرزندوں میں سے ایک تھا، نہ صرف فلسفی، بلکہ فقیہ، طبیب، ماہر فلکیات اور منطق دان بھی۔ مغرب میں وہ Averroes کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ارسطو کی کتب کی تشریح اور اس پر علمی مباحث ہے۔ اس کے کام نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی فکری بنیاد رکھی۔
ابن رشد مذہب اور عقل کے درمیان ہم آہنگی کا قائل تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ عقل خدا کا عطیہ ہے اور اس کا استعمال دین سے متصادم نہیں ہو سکتا، ہاں، ہم آہنگ ضرور ہو سکتا ہے۔ قرطبہ کی ان گلیوں میں اس کے قدموں کی آہٹ آج بھی گونجتی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے چشم تصور سے اس کی موجودگی کی نشانیاں دیکھیں، کسی محراب کی خاموشی میں، دروازے پر لٹکے تازہ پھولوں کی مہک میں، یا کسی گھر کے دروازے کے شمعدان میں بجھے ہوئے چراغ کی صورت میں۔
ان گلیوں میں آگے بڑھتے ہوئے پیڈرو نے ہمیں یہاں کی ایک دلچسپ روایت کے بارے میں بتایا:
قرطبہ میں ہر سال بہار کے موسم میں شہر کے سب گھروں کے اندرونی باغ کی خوبصورتی کا مقابلہ ہوتا ہے۔ سٹی کونسل تین بہترین اندرونی باغ رکھنے والے گھروں کو انعامات دیتی ہے۔ ان باغات کو پھولوں، پودوں اور سبزے سے سجایا جاتا ہے۔ انعام جیتنے والے گھروں کے مالکان کو پھر یہ اجازت ہوتی ہے کہ وہ سیاحوں کو اپنے باغ کی سیر کروا سکیں۔
اسی سلسلے میں ہمیں ایک بزرگ خاتون کے گھر کے بیٹیو باغ کو دیکھنے کا موقع ملا۔ پھولوں سے مہکتا ہوا، بیلوں سے ڈھکا ہوا اور محبت سے سنوارا گیا، ایک جیتا جاگتا اور شاداب باغ۔ بزرگ خاتون کی پھولوں اور پودوں سے محبت، اور اس کا دلچسپ زبانی اظہار، ہم سب تقریباً آدھے گھنٹے تک اس دلچسپ مصروفیت میں خوش و خرم رہے۔
ہم نے جو اندرونی باغ دیکھا، اس کی ترتیب، پرانی طرز کے فوارے، اور دیواروں پر چڑھی بیلیں، سب کچھ قابل دید تھا۔ مختصر سی جگہ میں تین منزلوں پر لگائے گئے مختلف پودوں، گملوں اور پھولوں کی ترتیب اور ان کی نگہداشت کے دلکش اور دلچسپ طریقے بتائے گئے۔ اس سلسلے میں لوگوں کے سوالات اور بڑی بی کے دلچسپ جوابات و وضاحتیں بھی بہت عمدہ تھیں۔
آج کا قرطبہ دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم قرطبہ کی زندگی کس قدر دلکش ہو گی، جب ان گلیوں میں لوگ پھولوں، پودوں، علم و ادب اور فکری آزادی سے پیار کرتے ہوں گے۔ جب ان ہی گلیوں میں ابن رشد جیسے دانشور آتے جاتے ہوں گے اور فکری مباحث میں مصروف رہتے ہوں گے۔ جب خواتین اپنے آنگن کو نہ صرف پھولوں سے، بلکہ علم و تہذیب سے بھی آراستہ کرتی ہوں گی۔
یہ تجربہ صرف ایک ہوم گارڈن وزٹ نہیں تھا، بلکہ ایک قدیم تہذیب کی جھلک تھی، اندلس کی تہذیب، جہاں عقل، جمال اور محبت ایک ساتھ سانس لیتے تھے۔
پھر ہم پیڈرو کی قیادت میں یہودی کوارٹرز کی جانب بڑھنے لگے، (جاری ہے)