پی آئی ڈی سی کا پان — کراچی کی قصہ کہانی
تحریر: شارق علی
ویلیوورسٹی
کراچی کے پی آئی ڈی سی کے علاقے کی ایک مشہور زمانہ پان کی دکان کا قصہ، جو آج بھی شہر کے بزرگوں اور پرانے باسیوں کی زبان زد عام ہے۔
یہ کوئی باقاعدہ تحقیق شدہ تاریخ نہیں، بلکہ اُن اورل فوکلور (oral folklore) میں شامل ہے، جو نسل در نسل زبانی کلامی منتقل ہوتی رہی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک خاتون ’’امّاں‘‘ پان بیچا کرتی تھیں، جن کا اصل نام مریم بی بی تھا۔
وہ قیامِ پاکستان سے پہلے لکھنؤ کے نواب حسین گنج کی بیگم کی خاص پان ساز ہوا کرتی تھیں۔
چونا دودھ میں گھول کر نرم کرنا، سانچی کے پتوں کا انتخاب، چاندی کے ورق میں لپٹی میٹھی گلوریاں، اور مصالحے کا نرالا توازن اُن کے شاہی ذوق کی علامت سمجھے جاتے تھے۔
ان کے بیٹے ’’شریف‘‘ کا پان بناتے وقت مخصوص بانکپن سے ہاتھوں کی جنبش دینا بھی مشہور تھا۔
1961ء میں اُنہوں نے پی آئی ڈی سی کے پاس پان کا ایک ٹھیلہ لگایا، جو بعد میں ’’شریف اینڈ امّاں پان ہاؤس‘‘ کے نام سے مشہور دکان بن گیا۔
شادی ہو، عید ہو یا کوئی خوشی کی تقریب، ہر کوئی یہی کہتا،
’’چلو، پی آئی ڈی سی کا پان کھائیں!‘‘
کہا جاتا ہے کہ امّاں ان دنوں خود اپنے ہاتھوں اور محبت سے پان کھلاتی تھیں۔
19 اپریل 1982ء کو امّاں کے انتقال کے بعد دکان تو باقی رہی، مگر اُن کی محبت، انداز اور تہذیب کا ذائقہ پھر کبھی لوٹ کر نہ آیا۔
یہ کہانی کراچی کی پرانی یادوں اور روایات کا حصہ ہے۔
یہ سچ ہے یا محض داستان، اس کا فیصلہ تو تاریخ دان ہی کریں گے۔
میں نے تو بس وہی سنایا ہے، جو سنا ہے۔
چاہے سچ ہو یا من گھڑت، یہ قصہ آج بھی شہر والوں کے دلوں میں زندہ ہے اور دھڑکتا ہے۔