Skip to content
Home » Blog » کنگز کالج کی کھڑکی

کنگز کالج کی کھڑکی

کنگز کالج کی کھڑکی

تحریر: شارق علی
ویلیوورسٹی

یہ بہت برس پرانی بات ہے جب میں نے پہلی بار کیمبرج دیکھا۔ میں ایک ہفتے کے لیے کنگز کالج کے ہاسٹل میں مقیم تھا۔ یہ میری پلاسٹک سرجری کی تربیت کا زمانہ تھا اور میں ایک ہفتے پر مشتمل ایڈوانسڈ پلاسٹک سرجری کے ریزیڈنشل کورس میں شرکت کے لیے کیمبرج آیا ہوا تھا۔

یہاں کی داستان گو پتھریلی گلیاں، تھوڑے تھوڑے فاصلے پر قائم مختلف کالجوں کی قدیم اور پرشکوہ عمارتیں، کنگز کالج کیتھیڈرل اور اس کے سبزہ زار، شہر کے مرکز کی علمی چہل پہل اور اندرونی گلیوں کی مدبرانہ خاموشی، دریائے کیم کے ساتھ ساتھ گہری سوچ میں ڈوبی دھیمی چہل قدمی، اور فٹز ویلیم میوزیم کی دوستانہ علمیت — سب کچھ بہت متاثر کن محسوس ہوتا تھا۔ جلد ہی میری اس شہر سے گہری دوستی ہو گئی۔

دوپہر کے وقت جب صبح کے لیکچرز سے فراغت ملتی تو میں ہاسٹل کے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھ کر لنچ کرتا۔ باہر نظر آتا دریائے کیم، اس میں پنٹنگ کرتی کشتیاں، اور پس منظر میں دکھائی دیتا “دی بیک” کا مرغزار—یہ سب مناظر میرے سامنے ہوتے۔ آتے جاتے سیاح، طالب علموں کی ہنسی سے گونجتی ٹولیاں—یہ منظر ایک خواب کی طرح محسوس ہوتا۔ ان لمحوں میں مجھے کئی عظیم لوگ یاد آتے: آیزک نیوٹن، سی ایس لیوس، عبدالسلام، اور ایلن ٹیورنگ۔

یہ وہی کالج ہے جہاں ایلن ٹیورنگ نے تعلیم حاصل کی تھی۔

میں اکثر سوچتا—کیا انہی گلیوں سے کبھی ٹیورنگ بھی گزرا ہوگا؟ وہ خاموش، گم سم لڑکا، جو دوسروں سے مختلف تھا، مگر ذہانت میں بے مثال۔ شاید اسی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اُس نے “یونیورسل مشین” کا تصور سوچا ہو—ایسی مشین جو ہر مسئلے کا حل نکال سکتی ہے، اگر اُسے درست ہدایات دی جائیں۔ آج ہم اسے کمپیوٹر کہتے ہیں۔ شاید اس عظیم انقلاب کی جڑیں یہی منظر بنے ہوں جو اُس وقت اُس کے سامنے تھے۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران، ٹیورنگ نے کیمبرج کی ان پُرسکون گلیوں کو چھوڑ کر لندن کے قریب بلیچلی پارک کا رخ کیا، جہاں اُس نے نازیوں کے خفیہ کوڈ “اینگما” کو توڑنے کے لیے ایک مشین ایجاد کی—جو ابتدائی کمپیوٹر سے ملتی جلتی تھی۔ ماہرین کے مطابق، ٹیورنگ کی کوششوں سے جنگ تقریباً دو سال پہلے ختم ہو گئی اور لاکھوں زندگیاں بچ گئیں۔ لیکن عام دنیا کو اس قربانی اور ذہانت کا ادراک بہت بعد میں ہوا۔

اگرچہ وہ ایک قومی ہیرو تھا، 1952 میں اُسے محض اس بنیاد پر مجرم قرار دیا گیا کہ وہ ہم جنس پرست تھا—ایک ایسا عمل جو اُس وقت برطانیہ میں قابل سزا جرم تھا۔ اُس نے جھوٹ بولنے کی بجائے سچ بولنا بہتر سمجھا اور سزا قبول کی۔ اُسے قید یا کیمیکل کاسٹریشن کا انتخاب دیا گیا، اور اُس نے بعد والا راستہ چُنا۔ یہ سزا اُس کے جسم و جان دونوں کے لیے اذیت ناک ثابت ہوئی۔ دو برس بعد، صرف اکتالیس برس کی عمر میں، ایلن ٹیورنگ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

سالوں بعد، برطانیہ کو اپنی سنگین غلطی کا احساس ہوا۔ 2009 میں حکومتِ برطانیہ نے اس پر سرکاری معافی مانگی، 2013 میں اُسے شاہی معافی دی گئی، اور 2021 میں اس کی تصویر پچاس پاؤنڈ کے نوٹ پر شائع کی گئی۔

ٹیورنگ، جنہیں کمپیوٹر سائنس کا بانی مانا جاتا ہے، نے 1950 میں یہ خیال پیش کیا کہ اگر کوئی مشین انسان کی طرح سوچ سکتی ہے اور گفتگو میں انسان کو دھوکہ دے سکتی ہے، تو اُسے “ذہین” کہا جا سکتا ہے۔ اس نظریے کو بعد میں “ٹیورنگ ٹیسٹ” کہا گیا، جو مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے بنیادی تصورات میں شمار ہوتا ہے۔

شاید کنگز کالج کے ہاسٹل کے اُس چھوٹے سے کمرے کی کھڑکی وقت اور تاریخ کے ایک دکھ بھرے لمحے کی طرف کھلتی تھی۔ آج میری مستقل رہائش کیمبرج کے قریب ہے اور میرا اس شہر میں اکثر آنا جانا رہتا ہے۔ بہت سی دیگر یادوں کے ساتھ یہ اداس کہانی بھی کبھی کبھار میرا ہاتھ تھام لیتی ہے۔

ایلن ٹیورنگ کی کہانی صرف کمپیوٹر کی ایجاد، مصنوعی ذہانت کی بنیاد یا جنگِ عظیم کی فتح کی داستان نہیں ہے—یہ ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جو خاموشی سے دنیا بدل گیا۔ ایک وژنری، جو آنے والے وقت کو دیکھ سکتا تھا، لیکن جس کے ذاتی انتخاب پر دنیا نے سفاکی سے ظلم کیا۔

جب کبھی آپ اپنا موبائل استعمال کریں یا مصنوعی ذہانت کا کوئی ٹول آپ کے سوال کا جواب دے، تو یاد رکھیے: یہ کسی کی ذہنی کاوش، تنہائی اور ایک خواب کی تعبیر ہے۔ ایک شرمیلا، خاموش نوجوان، جس نے کنگز کالج کی کھڑکی سے مستقبل کو دیکھ لیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *