Skip to content
Home » Blog » شان برن پیلس ، آسٹریا کہانی

شان برن پیلس ، آسٹریا کہانی

  • by

بارہویں قسط

شارق علی
ویلیو ورسٹی

صبح دیر سے آنکھ کھلی۔ شیو سے فارغ ہو کر میں نے قریبی گروسری اسٹور جانے کا فیصلہ کیا، جبکہ مونا کمرے میں ضروری فون کالز میں مصروف تھیں۔
میری عادت ہے کہ کسی بھی نئے ملک میں پہنچ کر وہاں کے مقامی پھل اور سبزیوں کا ذائقہ ضرور چکھتا ہوں۔ آسٹریا کے سیب، صحت مندی اور ذائقے میں برطانیہ کے سیبوں سے کہیں بہتر نکلے۔ خوبانی کا ذائقہ بھی بے مثال تھا۔ گروسری اسٹور سے میں نے سیب اور خوبانی کے ساتھ چیریز، ڈارک چاکلیٹ، اور دیگر ضروری اشیاء بھی خریدیں۔

کمرے میں واپسی پر آسٹرین چائے کے ساتھ بھرپور ناشتہ کیا۔ آج کی صبح ہم نے شان برن پیلس کی سیر کے لیے مخصوص کر رکھی تھی۔ ہمارا ہوٹل کسی زمانے میں بادشاہ کے ایک قریبی مصاحب کی ذاتی رہائش گاہ رہا تھا اور شان برن پیلس صرف دو سو گز کے فاصلے پر واقع تھا۔

یہ پیلس ویانا کا نہایت مشہور سیاحتی مقام ہے۔
ہوٹل سے نکل کر ہم ایک مصروف شاہراہ عبور کرتے ہوئے چند قدم چلے تو ایک بڑا لوہے کا دروازہ نظر آیا، جو پیلس کے وسیع باغات کی جانب کھلتا تھا۔ یہ اس کی سائیڈ اینٹرنس تھی۔ ہم نے پہلے سے خریدے گئے ٹکٹ دکھائے اور باغ میں داخل ہو گئے۔

باغ میں دونوں جانب پرانے لیکن صحت مند درختوں کی قطاریں تھیں۔ ان کے سائے میں رنگ برنگے پھولوں کی کیاریاں، راہداریوں کے ساتھ فوارے اور بینچیں موجود تھیں۔ کچھ لوگ گھوڑا گاڑی میں بیٹھے سیر کر رہے تھے، اور کچھ پیدل چلتے ہوئے فضا کا لطف اٹھا رہے تھے۔ ہم بھی ایک بینچ پر بیٹھ کر اس منظر کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔

تقریباً آدھے میل کی خوشگوار مسافت کے بعد ہم مرکزی عمارت تک پہنچے، جو اپنی شان و شوکت سے تاریخ کا پتہ دیتی ہے۔
یورپ کا دل کہلانے والا آسٹریا کبھی سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف یورپ کی آخری فصیل سمجھا جاتا تھا۔ 1529ء میں عثمانی سلطان، سلیمان دی میگنفیسنٹ، نے ویانا کا محاصرہ کیا، لیکن موسم اور مقامی مزاحمت کے باعث پسپا ہونا پڑا۔ اس کے بعد آسٹریا میں طاقت کا توازن ہیبس برگ خاندان کے ہاتھ آیا، جنہوں نے ویانا کو یورپی ثقافت، آرٹ اور سیاست کا مرکز بنا دیا۔

ہیبس برگ خاندان کی دولت اور جاہ و جلال کی علامت، شان برن پیلس، سترہویں صدی میں تعمیر ہوا۔ یہ صرف ایک محل نہیں بلکہ طرزِ حکمرانی، ذوقِ تعمیر، اور شاہانہ زندگی کا عکاس ہے۔
محل کی تزئین، باغات اور ہالز آسٹریا کی شاہی تاریخ کی خاموش گواہی دیتے ہیں۔ کچھ آگے جا کر ہم مرکزی دروازے تک پہنچے۔ عمارت بروک طرزِ تعمیر کی ایک شاندار مثال تھی۔ ہلکے پیلے رنگ کی، خوبصورت کھڑکیوں کے ساتھ تعمیراتی توازن کا حسن قابلِ دید تھا۔

ہم زینے چڑھ کر اوپر کی منزل پر گئے۔ بالکونی سے شہر کا دور تک پھیلا منظر اور محل کا پریڈ گراؤنڈ دکھائی دے رہا تھا۔ ہم نے یہاں کئی تصاویر لیں۔
بلندی سے نظارے کے بعد نیچے آ کر عمارت کے اطراف کا جائزہ لیا۔ ایک جانب ایک نہایت خوبصورت اندرونی باغیچہ تھا، جہاں رنگ برنگے پھول، فوارے اور ہرے بھرے درخت ماحول کو اور بھی دلکش بنا رہے تھے۔

یورپی معیار کے لحاظ سے اس وقت کا موسم خاصا گرم تھا۔ اسمان بادلوں سے خالی تھا اور تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ ہم نے ایک سایہ دار مقام پر بینچ تلاش کی اور وہاں بیٹھ کر سیاحوں کی آمد و رفت کا مشاہدہ کرتے رہے۔ پھر ہم نے ہوٹل کے کمرے میں واپس پہنچ کر تھوڑا سا آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔

دوبارہ باہر نکلے تو بھوک زوروں پر تھی اور دیسی کھانے کی تلاش تھی۔ گوگل سرچ سے ہمیں ایک چار اسٹار ریٹنگ والا پاکستانی/انڈین ریستوران “دیوانہ” ملا۔

کافی تلاش کے بعد جب ہم وہاں پہنچے تو کاؤنٹر پر ایک بنگلہ دیشی بھائی نے نہایت پرتپاک انداز میں ہمارا استقبال کیا۔

کھانے میں مکھنی دال، چاول، آلو کی سبزی، روٹیاں، اچار، اور سوجی کا حلوہ منگوایا گیا۔ مشروب میں ہم نے لسی کے بجائے سکنجبین کا انتخاب کیا۔
گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ صاحب خود تو ریستوران چلاتے ہیں، لیکن ان کی بیگم صاحبہ ڈاکٹر ہیں۔ ایک تیرہ سالہ بیٹا بھی ہے۔ بیگم انگلینڈ میں پریکٹس کرنا چاہتی ہیں، تو ہم نے انہیں کچھ بنیادی معلومات دیں اور اپنا کانٹیکٹ نمبر بھی دیا تاکہ وہ مستقبل میں چاہیں تو رابطہ کر سکیں۔ سوجی کے حلوے پر خشک میووں کا ضرورت سے زیادہ چھڑکاؤ ان کی شکر گزاری کا اظہار تھا ۔

۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *