بنگلہ دیش سفری رپورتاژ
بارہویں اور آخری قسط
شارق علی
ویلیوورسٹی
کانفرنس کے سارے مندوبین ہال کے باہر کشادہ لان میں ہاتھوں کی زنجیر بنائے دائرہ وار کھڑے ہوے تھے۔ دنیا کے مختلف کونوں سے شریک لوگ: امریکہ، افغانستان، برطانیہ، یوگنڈا، بنگلہ دیش، پاکستان، انڈیا، کینیڈا، نائجیریا، بھوٹان وغیرہ۔ جغرافیائی تقسیم سے بے نیاز وہ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے محض ایک مشترکہ دائرہ تھے۔ انسانیت کا دائرہ۔
یہ دائرہ مشترکہ دکھ کی آگاہی سے پیدا ہونے والی خوداعتمادی اور امید کا مظہر تھا۔ جیسے یہ ہاتھوں کی زنجیر ہر معاشی، نسلی، قومی اور مذہبی تقسیم کو گرا چکی ہو۔ ہم دائرہ نہیں، ایک خاندان بن چکے تھے۔ مختلف رنگوں اور خد و خال کے باوجود صرف انسان ہونے پر مسرور اور شادمان، امید اور یقین سے روشن محض انسان۔
آج ہماری چار روزہ برنس ریٹریٹ کا آخری دن تھا۔ شام میں ڈھاکہ واپسی طے تھی۔ صبح کے سیشن میں اختتامی لیکچرز اور شرکاء کے تاثرات شامل تھے۔ یہ کانفرنس نئے دوست بنانے، ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے اور باہمی تعاون کے فروغ کے لحاظ سے نہایت مفید ثابت ہوئی تھی۔
انٹر برنس (International Network for Training, Education and Research in Burns) ایک تنظیم ہے جو ویلش برن سینٹر کے ثام پوٹوکر، برن سینٹر کراچی کے شارق علی، اور مدھیہ پردیش کے اندور برن سینٹر کی شوبھا چمانیا کے اشتراک سے قائم کی گئی تھی۔ اس کا مقصد جلے ہوئے مریضوں کے علاج سے متعلق مسائل کو عالمی سطح پر حل کرنا ہے۔ یہ انٹر برنس کی دوسری ریٹریٹ تھی، جس میں اس بار ایشیائی ممالک جیسے پاکستان، بھارت، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا، اور میانمار کے علاوہ نائجیریا اور گھانا کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔
ہائر انکم ممالک کے مندوبین، جن میں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور سوئٹزرلینڈ شامل تھے، بھی اس چار روزہ کانفرنس کا حصہ بنے۔ اس کانفرنس کا مقصد صرف جدید طبی معلومات فراہم کرنا نہیں تھا بلکہ عالمی سطح پر باہمی تعاون اور انسانی خدمت کے جذبے کو تقویت دینا تھا۔
انٹر برنس کے قیام کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ جلا ہوا مریض انسانی دکھ اور تکلیف کی ایک عالمی علامت ہے، اور اس کے علاج میں کسی بھی قسم کی تفریق اور عدم مساوات ناقابل قبول ہے۔ یہ ریٹریٹ اس فلسفے کا عملی مظاہرہ تھی۔ اس میں شرکاء نے تحقیق، تجربات اور خیالات کا تبادلہ کیا اور عالمی سطح پر تعاون پر زور دیا۔
اختتامی سیشن کے دوران بیشتر شرکاء اپنے قومی لباس پہنے شریک تھے۔ ہم سب چائے کے وقفے کے بعد کانفرنس ہال کے باہر ایک کشادہ لان میں ہاتھوں کی زنجیر بنائے کھڑے ہوے تھے۔ چند لمحوں کے لیے خاموشی طاری ہوئی، جو شاید الفاظ سے زیادہ طاقتور محسوس ہوئی۔
پھر اچانک، ایک مدھم آواز بلند ہوئی:
“ہم ہوں گے کامیاب، ہم ہوں گے کامیاب…”
یہ آواز آہستہ آہستہ سب کی مشترکہ آواز بنتی چلی گئی۔ چند ہی لمحوں میں پورا دائرہ اس گانے سے گونجنے لگا:
“ہم ہوں گے کامیاب ایک دن، من میں ہے وشواس، پورا ہے وشواس، ہم ہوں گے کامیاب ایک دن۔”
یہ صرف الفاظ نہیں تھے بلکہ دنیا بھر کے عام لوگوں کی آرزوؤں اور امنگوں کی ترجمانی تھی۔ زبانیں مختلف تھیں، مگر امید مشترک تھی۔ یہ گانا پہلے اردو اور ہندی میں گایا گیا، پھر انگریزی میں:
“We shall overcome, we shall overcome, one day…”
آوازیں بلند تھیں اور دائرہ مضبوط۔ ہم وقت کو تھام کر کچھ دیر تک یہ گانا گاتے رہے۔ حتی کہ ہماری آنکھوں میں دنیا کی جغرافیائی تقسیم دھندلا گئی اور صرف انسانیت واضح دکھائی دینے لگی۔
گانے کے اختتام پر بہت سی تصویریں کھینچی گئیں۔ گروپ فوٹوز اور الگ الگ دوستوں کے ساتھ یادگار لمحات محفوظ کیے گئے۔ اختتامی تقریب میں اسناد تقسیم کی گئیں، اور شرکاء ایک دوسرے کو گلے لگا کر رخصت ہوئے۔
ہم سلہٹ سے ڈھاکہ جانے والی سڑک پر منی بس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش میں گزارے ان چند دنوں کی حسین یادیں ایک ایک کرکے ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ سرسبز و شاداب، تا حد نظر پھیلے ہوئے دھان کے کھیت، گنگناتے دریا، نا ختم ہوتے جنگلات، جا بجا بکھری چھوٹی بڑی جھیلیں، اور سب سے بڑھ کر کشادہ دل اور مہمان نواز لوگ۔ کتنا کچھ تھا یاد کرنے کو!
رات گئے ہوٹل پہنچ کر صرف سونا ہے۔ اگلے دن واپسی کی فلائٹ تھی۔ سفر تمام ہوا لیکن اس سفر کی خوشبو تادیر ساتھ رہے گی۔
۔۔۔اختتام۔۔