Skip to content
Home » Blog » روایتی ناشتہ

روایتی ناشتہ

روایتی ناشتہ

چوتھی قسط

شارق علی
ویلیو ورسٹی

ہوٹل کی لابی میں دوستوں سے ملاقات کے بعد جب میں کمرے میں پہنچا تو خاصا تھک چکا تھا۔ ایک طویل شاور نے کچھ تازگی بخشی اور بھوک بھی شدت سے محسوس ہونے لگی۔ نیچے ڈائننگ ہال تک جانے کی ہمت نہ تھی، اس لیے روم سروس سے کھانا منگوایا اور ٹی وی پر انگریزی میں مقامی خبریں سنتے ہوئے کھانا کھانے لگا۔ مقامی خبریں کسی بھی ملک کے بارے میں بہت سے راز کھول دیتی ہیں۔ اور پھر بنگلہ دیش سے تو پرانی شناسائی بھی ہے۔ بہت سی دلچسپ باتیں معلوم ہوئیں۔ یہ ملک سطح سمندر سے نیچے واقع ہے، جہاں اکثر سیلاب آتے رہتے ہیں۔ بنگلہ دیش بے حد سرسبز و شاداب ہے اور اس کے گھنے جنگلوں میں آج بھی چیتے اور بنگال ٹائیگر گھومتے پھرتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان اور بھارت میں بھی بہت سے لوگ بیرون ملک کام کرتے ہیں، لیکن شاید بنگلہ دیش اس معاملے میں تمام پڑوسی ممالک سے آگے ہے۔ ڈھاکہ دنیا کا سب سے گنجان آباد شہر ہے۔ ایک گلی میں ایک گاؤں کے برابر لوگ زندگی گزارتے ہیں۔ رہائشی سہولیات کے لحاظ سے شاید یہ دنیا کے پسماندہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ غربت اپنے عروج پر ہے، لیکن حالیہ چند برسوں میں اس ملک نے قابلِ تعریف ترقی کی ہے اور اب غربت میں بہت تیزی سے کمی آ رہی ہے۔

خبریں سننے اور کھانا کھانے کے بعد میں نے سامان میں سے کتاب نکالی اور اسے پڑھتے پڑھتے سو گیا۔ صبح آٹھ بجے کے قریب آنکھ کھلی۔ معمولات سے فارغ ہو کر سامان سمیٹا اور سفر کے لیے تیار بیگ کمرے میں چھوڑ کر ڈائننگ ہال میں پہنچا تو دوستوں کی محفل اپنے عروج پر تھی۔ ناشتے کی میز پر ٹام، رچرڈ اور روتھ پہلے سے موجود تھے۔ میں اور اپوکو تقریباً ایک ساتھ ہی ہال میں داخل ہوئے اور ناشتے اور گفتگو میں شامل ہو گئے۔

ناشتے کے لیے دو انتخاب تھے: انگلش بریکفاسٹ یا بنگالی روایتی ناشتہ۔ ہم سب نے بنگالی روایتی ناشتے کو ترجیح دی۔ ناشتے میں پراٹھا، خوب پکی ہوئی آلو مٹر پالک کی سبزی، ایک چھوٹی سی کٹوری میں دال، فرائی انڈہ، توس، مکھن، چائے اور تھوڑا سا میٹھا دہی شامل تھا۔

ناشتے کے فوراً بعد ساڑھے نو بجے ہمیں ہوٹل سے چیک آؤٹ کرنا تھا اور پھر سلہٹ کے قریب واقع چائے کے باغات کے لیے مشہور قصبے سری مونگول کے لیے بذریعہ سڑک روانہ ہونا تھا، جہاں اس برنس ریجنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ناشتے کے دوران ہی ایسڈ سروائیورز فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر منیرہ رحمان اور سمایل ٹرین کے نمائندے، ایک مقامی پلاسٹک سرجن ڈاکٹر ایوب علی، آ گئے۔ رسمی دعا سلام کے بعد ناشتہ جاری رہا۔

یہ دونوں تنظیمیں انٹربرنس کے ساتھ اس کانفرنس کے انعقاد میں برابر کی شریک تھیں۔ تمام مقامی انتظامات منیرہ رحمان اور ان کی ٹیم کے ذمے تھے، جو تین روز پہلے ہی سے سری مونگول میں مقیم تھی۔ ناشتے کے دوران منیرہ نے ہمیں تفصیلی بریفنگ دی اور مقامی انتظامات کے ساتھ ساتھ ڈیلیگیٹس کے بارے میں بھی بتایا۔ معلوم ہوا کہ میں نے پاکستان سے لیاقت میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر کو انٹربرنس کی فنڈنگ پر بلوایا تھا وہ اپنی بیگم کے ساتھ تشریف لائے ہیں۔ امریکہ سے مائیکل پیک، کینیڈا کے بو علی اور افغانستان کے صوبہ قندھار سے برنس سرجن ڈاکٹر غفار اور ان کے چیف ٹیکنیشن بھی سری مونگول پہنچ چکے تھے … جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *