یزد ، ریت اور ہوا سے بنی زندہ بستی
شارق علی
ویلیوورسٹی
ایران کے وسطی ریگستان کے کنارے، زاگرس پہاڑوں کے سائے میں ایک ایسا شہر آباد ہے جو صدیوں سے انسان کی عقل، فطرت کے احترام اور بقا کی جدوجہد کا مظہر ہے۔ یہ ہے یزد۔ مٹی کی اینٹوں سے بنی وہ قدیم بستی جسے دنیا بادگیروں کا شہر کہتی ہے۔
یہ شہر دیکھنے میں یوں لگتا ہے جیسے ریت اور سورج کی روشنی سے تراشا گیا ہو۔ گلیاں تنگ مگر ہوادار، دیواریں زرد مائل مٹی کی تہہ سے آراستہ، اور ہر گھر کی چھت پر ایک بلند بادگیر—وہی ہوا پکڑنے والا برج جو صدیوں پہلے انسان نے ایئر کنڈیشنر کے طور پر ایجاد کیا تھا۔
یزد کی فضا میں جیسے ایک خاموش موسیقی بستی ہے۔ جب گرم دوپہر کی دھوپ اینٹوں سے ٹکراتی ہے، تو صحنوں میں پودوں کی چھاؤں اور کنوؤں کے پانی کی ٹھنڈک تازگی کا احساس دیتی ہے۔ ان گھروں کی موٹی دیواریں دن کی گرمی کو جذب کر لیتی ہیں اور رات کو ٹھنڈک واپس لوٹا دیتی ہیں۔
یہ شہر محض ایک تاریخی مقام نہیں، بلکہ ایک زندہ سبق ہے کہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر جینا کیا ہوتا ہے۔ تنگ گلیاں سورج کی تپش سے سایہ پیدا کرتی ہیں، صحن گھر کے دل کی طرح ٹھنڈک اور سکون دیتے ہیں، اور بادگیر ہوا کے ہر جھونکے کو احترام سے اندر لاتے ہیں۔
یزد کے زیرِ زمین قناطوں (آبی سرنگوں) کے جال نے اسے صحرا میں ایک نخلستان بنا دیا ہے۔ پانی دور پہاڑوں سے خاموشی سے سفر کر کے یہاں کے ذخائر میں جمع ہوتا ہے، جہاں سے گھروں، مساجد اور باغوں تک پہنچتا ہے۔
شام کے وقت جب سورج زردی مائل اینٹوں پر آخری کرنیں بکھیرتا ہے تو یزد ایک سنہری خواب کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کا ہر گوشہ انسان کی اختراع، فطرت سے ہم آہنگی، اور صبر و قناعت کی علامت ہے۔
یزد ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جدید دنیا کی مشینوں سے پہلے بھی انسان فطرت کے اصولوں کو سمجھ کر خوبصورتی اور دانائی کے ساتھ زندہ رہ سکتا تھا۔
یہ صرف ایک شہر نہیں۔ یہ صحرا کا شعور ہے، مٹی کی دانش ہے، اور ہوا کی زبان میں لکھی ہوئی تہذیب ہے۔
