ہمیشگی اور فنکار
شارق علی
ویلیوورسٹی
ہر فنکار کے دل میں یہ خواہش ہمیشہ سے بسی ہوتی ہے کہ وہ اپنے فانی وجود سے آگے بڑھ کر کچھ ایسا تخلیق کرے جو وقت کی قید سے آزاد ہو کر ہمیشہ قائم رہے۔ جب ہم کوئی مجسمہ تراشتے ہیں، تصویر بناتے ہیں، شاعری کرتے ہیں، یا نثر میں خیالات کا اظہار کرتے ہیں، تو ہمارے دل میں یہ آرزو ضرور موجود ہوتی ہے کہ ہمارے جانے کے بعد بھی ہمارے وجود کی شہادت باقی رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا فن ہمارے فانی وجود کی یادگار بنے اور انسانیت کی فلاح میں ہمارا حصہ تسلسل کے ساتھ باقی رہے۔
فنکار کو اپنے فنا ہونے کا شدید احساس ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وقت کا پہیہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور ایک دن وہ اس دنیا میں نہیں ہوگا، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کا فن اُس کی ہمیشگی کی علامت بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تخلیقی عمل میں اپنی روح کا ایک لافانی حصہ ڈالنے کی کوشش ضرور کرتا ہے تاکہ اس کا کام اُس کے جانے کے بعد بھی اُس کے وجود کی نمائندگی کرے۔
فنکار کی یہ تخلیقی کوشش صرف ذاتی یادگار نہیں ہوتی، بلکہ ایک سماجی ذمہ داری بھی ہوتی ہے، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے فن کے ذریعے دنیا بہتر ہو، انسانیت کو علم اور روشنی ملے، اور آنے والی نسلیں اُس کے کام سے سیکھ سکیں۔ اس طرح اُس کا فن تادیر قائم وجود بن جاتا ہے، جو جسمانی وجود کے ختم ہونے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔
فنکار کی یہ جستجو ایک طرح سے اُس ازلی خوف کا بھی جواب ہے جو فنا سے جڑا ہوا ہے۔ وہ دہلیزِ وقت پر اپنے فن کا گلدستہ رکھ کر اس دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہے، تاکہ اُس کا وجود دائمی نہ سہی، لیکن دیر رس طور پر قائم رہے۔ اُس کے فن کی خوشبو وقت کی ہوا میں تادیر پھیلی رہے اور اُس کا تخلیقی عمل آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے۔
آج کل ویڈیو اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع نے فنکار کے لیے اپنے کام کو محفوظ رکھنے کے بے پناہ مواقع فراہم کر دیے ہیں۔ ان ویڈیوز اور ڈیجیٹل تحریروں کے ذریعے، فنکار اپنی تخلیقات کو نہ صرف زندہ رکھ سکتا ہے بلکہ اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکتا ہے، تاکہ اُس کا فن زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو کر ہمیشگی کا لباس پہن سکے