Skip to content
Home » Blog » ہماری منزل: ہالشٹاٹ ,آسٹریا کی کہانی

ہماری منزل: ہالشٹاٹ ,آسٹریا کی کہانی

  • by

آٹھویں قسط

تحریر: شارق علی
ویلیو ورسٹی

صبح کی نرم روشنی اور ویانا کے موسم بہار کی خوشگوار ہوا— ہم صبح چھ بجے بیدار ہوئے، کمرے ہی میں ناشتہ کیا، اور اپنا اپنا بیک پیک سنبھالے کارل پلاٹز جانے والی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ پونے آٹھ بجے ہم مقررہ مقام پر پہنچ چکے تھے—ویانا ٹورسٹ انفارمیشن آفس کے بالکل سامنے۔ ہمارے ایک جانب البیرٹینا میوزیم تھا۔

ہماری طرح دوسرے سیاح بھی آہستہ آہستہ وہاں جمع ہو رہے تھے۔ کچھ دیر بعد، ایک خوش لباس فربہ خاتون، جن کے چہرے پر نمایاں مسکراہٹ تھی، ہماری طرف بڑھیں۔ ان کے سینے پر کمپنی کا بیج آویزاں تھا۔ قریب آ کر انہوں نے اپنا تعارف ٹاشا کے نام سے کرایا۔ ان کے انداز و اطوار اور خوش گفتاری میں ایک گہرا حسِ مزاح اور اپنائیت جھلکتی تھی۔ ہم سمیت سبھی ان کے گرویدہ ہو گئے۔

کچھ دیر بعد، انہوں نے تمام سیاحوں سے ان کی منزل دریافت کی اور ہمیں دو گروپوں میں تقسیم کر دیا۔

  1. پہلا گروپ سالزبرگ جانے والوں پر مشتمل تھا—یہ موسیقی کے دلدادہ لوگ تھے، جو امادیس موزارٹ کی جائے پیدائش دیکھنے، بلکہ یوں کہیے کہ اس کی زیارت کرنے جا رہے تھے۔ سالزبرگ کو فلم “ساؤنڈ آف میوزک” کی شوٹنگ کے حوالے سے بھی عالمی شہرت حاصل ہے۔
  2. دوسرا گروپ—جس میں ہم بھی شامل تھے—وہ تھا جو تاریخ اور قدرتی مناظر میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا اور ہالشٹاٹ کے تاریخی قصبے کی سیر کا ارادہ رکھتا تھا۔

ٹاشا نے سالزبرگ والے گروپ کو ان کی متعلقہ کوچ میں سوار کروایا اور پھر ہماری قیادت سنبھال لی۔ ہم سب قطار بنا کر کسی اسکول کے بچوں کی طرح ان کے پیچھے چلنے لگے۔ ایک منٹ کی مسافت کے بعد، ہم ایک پیلی رنگ کی شاندار لگژری کوچ کے دروازے پر پہنچے اور قطار بنا کر سوار ہو گئے۔

یہ کوچ نہایت آرام دہ تھی اور کسی جدید جہاز کی طرح سہولیات سے آراستہ تھی—پرسنل انٹرٹینمنٹ، ہر وقت چائے اور کافی کی سہولت، اور ٹوائلٹ فیسلٹیز۔ 300 کلومیٹر طویل سفر کے لیے ایسی ہی کوچ سفر کو پرلطف بنا سکتی تھی۔

پہلی نظر میں، ڈرائیور صاحب شرمیلے سے، ادھیڑ عمر کے آدمی معلوم ہوتے تھے، مگر سفر کے دوران اندازہ ہوا کہ یہ شرمیلا پن نہیں، بلکہ انگریزی سے ناواقفیت تھی، جو ان کی کم گوئی کی وجہ بنی۔ کیونکہ دورانِ سفر، وہ ٹاشا سے خاصے بے تکلف دکھائی دیے۔

سفر کا آغاز

جیسے ہی ہم سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے، ٹاشا نے حفاظتی اقدامات، سہولیات، اور سفر کی تفصیلات بڑے خوشگوار اور پروفیشنل انداز میں فراہم کیں۔ انہوں نے کہا:

“آپ سب کو اس خوبصورت سفر میں خوش آمدید! ہم ویانا شہر کے بیچ سے گزرتے ہوئے روانہ ہوں گے۔ پھر آسٹریا کے دلکش قدرتی اور دیہاتی مناظر آپ کی نظروں سے ہو کر گزریں گے۔ راستے میں سرسبز وادیاں، برف پوش پہاڑ، اور روایتی دیہات دیکھنے کو ملیں گے۔ ہمارا پہلا مختصر وقفہ میلک نامی خوبصورت گاؤں کے سروس اسٹیشن پر ہوگا، جہاں آپ تازہ کافی یا مقامی کھانوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ پھر ہم جھیلوں کے کنارے سفر کرتے ہوئے ہالشٹاٹ پہنچیں گے، جو اپنی پریوں کے دیس جیسی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے—
ایک ایسا تاریخی مقام، جسے یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ تسلیم کیا ہے اور جو قدرتی حسن اور قدیم تاریخ سے مالامال ہے۔ اپنی نشست پر ریلیکس کیجیے اور اس یادگار سفر کا مزہ لیجیے!”

بین الاقوامی ماحول

اس کے بعد، گائیڈ نے سب سیاحوں کے مختصر تعارف کی سرگرمی کا آغاز کیا—ہر مسافر کو اپنا اور اپنے ملک کا تعارف دینا تھا۔ یوں محسوس ہوا جیسے ہم کسی اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں بیٹھے ہوں۔ انگلینڈ، فرانس، تائیوان—گویا بھانت بھانت کے لوگ اس کوچ میں موجود تھے۔

آپس کی بات چیت نے ماحول کو مزید دلچسپ اور رنگین بنا دیا۔ مختلف ثقافتوں، زبانوں، اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا یہ خوبصورت امتزاج ہمیشہ میرے دل کو بہت بھاتا ہے۔ ہم سب کو ایک ساتھ، ایک ہی منزل کی طرف بڑھنا تھا—

“قدرتی حسن اور تاریخ کے سنگم پر واقع ہالشٹاٹ۔”

ہالشٹاٹ: خوابوں کی جھیل

یہ آسٹریا کا وہ قصبہ ہے، جو اپنی دلکش جھیل، قدیم نمک کی کانوں، اور برف سے ڈھکے پہاڑوں کے باعث مشہور ہے۔ یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ میں شامل یہ گاؤں دنیا کے خوبصورت ترین مقامات میں شمار ہوتا ہے، جہاں ہر منظر کسی مصور کی بنائی ہوئی تصویر کی مانند دکھائی دیتا ہے۔۔۔

۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *