🌞 کیا ہماری سوچ روشنی سے زیادہ تیز رفتار ہے؟
✍️ شارق علی
ویلیوورسٹی
سورج کی روشنی زمین تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لیتی ہے،
مگر ہم آنکھ بند کرتے ہی لمحے بھر میں سورج کا تصور کر لیتے ہیں۔
تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ ہماری سوچ روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتار ہے؟
یہ خیال بظاہر دلکش ہے،
لیکن حقیقت میں یہ ایک واہمہ ہے، کوئی مادی حقیقت نہیں۔
ہماری سوچ نیورونز اور نیوروٹرانسمیٹرز پر مبنی ایک حیاتیاتی عمل ہے
جس کی رفتار ایک سے لے کر 120 میٹر فی سیکنڈ تک محدود ہے۔
یعنی روشنی کے مقابلے میں یہ رفتار انتہائی کم ہے۔
جب ہم سورج کے بارے میں سوچتے ہیں،
تو حقیقت میں ہم نے کوئی فاصلہ طے نہیں کیا۔
نہ ہماری سوچ خلا میں سفر کرتی ہے
اور نہ ہی سورج سے کوئی براہِ راست رابطہ قائم ہوتا ہے۔
ہم صرف ایک تصور کو ذہن میں لاتے ہیں
جو یا تو ہماری یادداشت ہے، یا تخیل۔
یہی وہ مقام ہے جہاں فلسفہ اپنا رنگ دکھاتا ہے۔
ڈیکارٹ کہتا ہے:
“I think, therefore I am.”
(میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں)
یعنی سوچ ہی ہماری اصل پہچان ہے،
اور وجود کی واحد یقینی دلیل۔
لیکن برکلے اس سے بھی آگے بڑھتا ہے:
“To be is to be perceived.”
(ہونا صرف تب ہے جب کسی کے شعور میں ہو)
یعنی اگر ہم کسی چیز کو نہ دیکھیں،
نہ اس کے بارے میں سوچیں،
تو وہ ہمارے لیے موجود ہی نہیں۔
تو پھر سوال یہ ہے:
اگر ہم سورج کو نہ دیکھیں، نہ محسوس کریں
تو کیا وہ واقعی موجود ہے؟
یا محض ایک خیال؟
یہاں سے ایک گہرا سوال جنم لیتا ہے:
کیا یہ ممکن ہے کہ پوری کائنات
کسی عظیم تر شعور کا خواب ہو؟
کیا ہم سب ایک تصور میں جی رہے ہیں
کسی اعلیٰ ترین ہستی کی سوچ کا عکس؟
اور اگر وہ ہستی
وہ خالق
ایک دن آنکھ کھولے..
تو شاید ہم سب
محض ایک خیال بن کر
خاموشی میں تحلیل ہو جائیں۔