Who knows who created the universe? There are stories to tell and believe.
ناشتہ کر چکے ہیں آپ۔ تو آئے ہمارے ساتھ میڈنگلے کے باغ کی سیر کو چلیے۔ یہ میرا جیک اور زن کا معمول ہے. کبھی کبھی سائکلو بھی ہمارے ساتھ ہوتا ہے مگر آج نہیں . یہ جو پتھر کی اینٹوں سے بنی پیدل رہگزاروں کے دونوں جانب موجود ننھے ننھے سفید پھولوں سے لدی جھاڑیاں دیکھ رہے ہیں آپ ۔ انہیں بلیک تھورن کہتے ہیں۔ گہرے اور ہلکے پیلے اور سفید ڈیفوڈلز کے حسین اور لہلہاتے پھولوں کی طرح بلیک تھورن کا سفید پھولوں سے لد جانا بھی یہاں برطانیہ میں آمد بہار کا آغاز ثابت ہوتا ھے۔ عمومآ اپریل کے آخری ہفتے میں۔ میں نے چلتے چلتے جیک سے کہا . سائکلو نے کائنات کی ابتدا کے حوالے سے بگ بینگ کا جو ذکر کیا اس ضمن میں کچھ سوال ہیں مرے ذہن میں. جیسے کائنات کا آغاز آخر کیوں؟ جیک بولا . سائنس اور سائنسدان جس سوال سے سروکار رکھتے ہیں وہ ھے کیسے۔ جبکہ بعض صورتوں میں بنیادی سوال ہوتا ھے کیوں۔ شاید کیوں ہی سب سے مشکل سوال بھی ہے۔ بگ بینگ ظاہر ہے کہ صرف ایک ساءنسی نظریہ ہے عقیدہ نہیں. اور سائنسدان کسی بھی بات کو گھڑنے پر یقین نہیں رکھتے ۔ وہ صرف مشاہداتی سچ تسلیم کرتے ہیں. تمہاری یہ بات درست ہے کہ یہ نظریہ اس بات کا کوئی سراغ نہیں دیتا کہ ایسا کیوں ہوا؟ اور کس نے کیا؟ سائنسدانوں کے لحاظ سے ان دونوں سوالوں کا صحیح جواب ہے ہمیں نہیں معلوم۔ اور فی الحال یہ ہی درست جواب ہے . انسانی صورتحال کا تکلیف دہ سچ یہ ہے کہ زندگی میں بہت سے ایسے سوال جو ہمارے ذہنوں میں ابھرتے ہیں ان کا درست جواب یہی ہوتا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم۔ نامعلوم کی تکلیف سے بچنے کے لئے کوئی مفروضہ گھڑ لینا نہ صرف یہ کہ اخلاقی لحاظ سے جھوٹ ھو گا بلکہ یہ ہماری سوچ کو درست جواب کی کامیاب تلاش سے دور لے جانے کی سنگین غلطی بھی کرے گا. ارے آپ چلتے چلتے رک کیوں گئے؟ یہ گلابی پھولوں سے بھرا ہواخوبصورت درخت جس کے سامنے آپ سحر زدہ ھو کر کھڑے ہو گئے ہیں یہ چیری بلوسم کہلاتا ہے۔ یہاں کیمبرج کی گلیوں محلوں میں آپ کو سفید ، گلابی اور پیازی پھولوں سے لدے ایسے کئی درخت دیکھنے کو مل جائیں گے . پھولوں سے طبیعت سیر ہو گئی ہو تو آئیے کچھ دیر یہاں جھیل کے کنارے لگی اس بینچ پر بیٹھ کر راج ہنسوں اور بطخوں کو تیرتے ھوے دیکھتے ھیں۔ جیک نے بات جاری رکھی . محض بات سمجھنے کے لیے اس مفروضے پہ زرا غور کرو۔ قدیم انسان نے جب نظریں اوپر اٹھائیں اور تاروں بھری رات کو دیکھ کر یہی سوال کیا کہ کائنات کس نے بنائی؟ تو اس کا درست جواب نہیں معلوم اسے مطمئن نہ کر سکا۔ بلکہ وہ انجانے خوف سے بے چین ھو گیا۔ کسی نے یہ کہانی گھڑی کہ اسے گنیش نے بنایا ھے۔ گاؤں والے اس بات سے مطمئن ہوے اور گنیش کی مورتی بنا کر اسے بڑے سے مندر میں سجا کر پوجا شروع کر دی گئی۔ وہاں سے سینکڑوں میل دور کسی اور گاؤں میں جہاں کا رہن سہن زبان اور موسمی حالات ذرا مختلف تھے۔ اسی سوال اور اس کے جواب میں بننے والی کہانی بھی مختلف تھی۔ انہوں نے اسے سورج دیوتا کا کارنامہ قرار دے کر مقدس آگ کی عبادت شروع کر دی۔ سرحدیں پھیلیں تو اصل جھگڑا زمینی ملکیت اور اقتدار یعنی انسانی مفاد کا تھا لیکن یہ اختلاف خداؤں کی جنگ میں تبدیل ہو گیا ۔ دیوتا تو آسمانوں پر بے نیاز رھے لیکن زمین پر انسانی قتل و غارت گری جاری رہی۔ زن نے بطخوں کو ڈبل روٹی کے ٹکڑے پھینکتے ہوے کہا . کوئی یہ بات سننے پر راضی نہیں تھا کہ گنیش اور سورج دیوتا دراصل دو مختلف لیکن گھڑی ہوئی کہانیوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایک اور بڑا نقصان یہ ہوا کہ جو توجہ کائنات کے اصول اور قوانین کو سمجھنے اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی سمت ہونا چاہیے تھی وہ فضول کہانیوں کی تفصیلات پر مرکوز رہ کر ضائع ہوگئی۔ آج بھی اکثر اوقات ھم سامنے کے سچ سے بے نیاز گھڑی ہوئی کہانیوں کے سحر میں گم شدت جذبات میں ایک دوسرے کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے میں شامل ھو جاتے ھیں۔ کیوں نہ یہ کڑوا سچ قبول کر لیا جاے کہ بعض سوالوں کے جواب ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن جو کائناتی حقایق ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں ان کے اصول سمجھنے کی بھرپور کوشش کی جاے ۔۔۔۔۔ جاری ہے