کامیو اور سیسیفس
شارق علی
ویلیو ورسٹی
نوٹ:
“البرٹ کامیو ایک مشہور فرانسیسی فلسفی اور مصنف تھا۔ وہ اپنی تحریروں میں انسان کی زندگی کے بے معنی ہونے اور اس کے ساتھ جڑے بے بس حالات کو موضوع بناتا ہے۔ کامیو کے مضمون “سیسیفس کا افسانہ” میں، وہ یونانی دیومالا کے ایک کردار سیسیفس کی تمثیل کا سہارا لیتا ہے جسے دیوتاؤں نے ایک چٹان کو پہاڑ کی چوٹی تک لے جانے کی سزا دی تھی۔ اونچائی پر پہنچ کر ہر بار وہ چٹان پھر سے نیچے لڑھک جاتی تھی۔ اس تمثیل کے ذریعے کامیو نے انسان کی مسلسل جدوجہد اور اس کے بامعنی ہونے یا نہ ہونے پر سوال اٹھایا ہے۔”
ہم اس وادی میں جانے کب سے ہیں۔ ہر طرف بڑی بڑی چٹانیں بکھری ہوئی ہیں۔
میں یہاں اکیلا نہیں ہوں، بلکہ چھ بلین سے زیادہ افراد اس وادی میں ایک ہی وقت میں بکھرے ہوئے ہیں اور ان چٹانوں کے درمیان گھوم رہے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک اونچا سا پہاڑ ہے – زندگی کا پہاڑ۔ ان چٹانوں پر کچھ لکھا ہوا ہے، آئیے قریب سے دیکھتے ہیں۔ ان چٹانوں پر کہیں کچھ اور کہیں کچھ لکھا نظر آتا ہے: مادی کامیابی، شہرت، مال و دولت، اور محبت۔
ہم میں سے ہر ایک کو کسی ایک وزنی چٹان کا انتخاب کرنا ہے، چاہے وہ کوئی سی بھی ہو۔ پھر اسے اپنے کاندھے پر اٹھا کر زندگی کے اس پہاڑ پر چڑھنا ہے۔ اس کی چوٹی تک پہنچنا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچیں گے، تو یہ چٹان ہمارے کاندھے اور پہاڑ کی بلندی سے لڑھک کر دوبارہ وادی میں آگرے گی۔ پھر ہمیں دوبارہ اسے کاندھے پر چڑھا کر زندگی کا پہاڑ چڑھنا ہوگا۔
ہم سب سیسیفس ہیں، نامعلوم دیوتاؤں کی سزا کے سزاوار۔ ہماری آزادی اور بغاوت محض اتنی ہے کہ ہم اپنی چٹان کا انتخاب خود کریں۔ زندگی کے پہاڑ پر چڑھنے کی مسلسل جدوجہد میں خود اپنے لیے معنی تلاش کریں۔
میں نے ایک چٹان کا انتخاب کیا ہے۔ اس پر لکھا ہے “محبت” – زندگی سے اور انسانیت سے محبت!
کیا آپ نے کسی چٹان کا انتخاب کیا؟
سیسیفس کی یہ کہانی آنے والے کل کا البرٹ کامیو لکھے یا نہ لکھے، لیکن ہماری سزا کی سختی اور آسانی ہمارے انتخاب سے منسلک ہے۔
محبت کی بھاری چٹان کاندھے پر اٹھاے میں یہ سفر شروع کرتا ہوں۔
سفر بخیر