British had insufficient manpower to rule India. A ruling system was devised headed and paid by British called Kalay Sahebs. Comprised of local landlords, mercenaries and native bureaucracy
کالے صاحب ، سامراج ، انشے سیریل ، دوسرا انشا ، ویلیوورسٹی، شارق علی
پروف انگریز سامراج کے آغاز کی بات کر رہے تھے. بولے. پندرھویں صدی کی سفاکانہ غلام تجارت اور یورپ کے ساحلوں پر قزاقی کے تجربے اور روشن خیالی کے پھیلاؤ نے یورپی اقوام کو سائنسی اور فوجی خاص طور پر بحری قوت کے لحاظ سے طاقتور بنا دیا تھا. جب غلام تجارت پر پابندیاں لگنی شروع ہوئیں تو انہوں نے کم ترقی یافتہ دنیا کے وسائل کی بندر پانٹ کو اخلاقی جواز دینا شروع کیا کہ وہ ان ملکوں پر تسلط سے پسماندہ اقوام کی ثقافتی ترقی اور عیسایت کی ترویج کا سبب بنیں گے. حالانکہ اصل محرک لالچ تھا تاکے دولت اور وسائل پر قبضہ کیا جاسکے. وقت نے ثابت کیا کہ ہندوستان سے برطانیہ نے جو دولت، افرادی قوت اور پیداواری صلاحیت حاصل کی یہ اسی لوٹ مار کا نتیجہ تھا کہ وہ پوری دنیا پر حکمرانی کے قابل ہو سکا. اس میں شک نہیں کہ برطانوی ذہنی صلاحیت اور تنظیم نے اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی سوجھ بوجھ، ظلم اور عیاری نے آنے والے طویل عرصے تک اس حکمرانی کو قائم رکھا لیکن بنیادی طاقت ہندوستان کے وسائل تھے جو غصب کیۓ گئے ۔ سب سے پہلے تو برطانیہ نے میڈیٹرینین کے اردگرد کے علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ پھر افریقہ کے کئی علاقوں پرجھنڈا گاڑا اور پھر وہ بحر ہند میں موریشس پر قابض ہوئے۔۔ پھر موجودہ سری لنکا پر اور آخرکار سنگاپور پر. دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا یہ جان گئی کہ برطانیہ جو بذات خود ایک چھوٹا سا ملک ہے ایک عالمی طاقت بن کر ابھر رہا ہے جس کو چیلنج کرنا ممکن نہیں ۔ سوفی نے بات بدلتے ہوے بانو امی سے پوچھا. اس زمانے کا فیشن اور شاپنگ ؟ مسکرا کر بولیں. فیشن اور شاپنگ تو دور کی بات ہے خواتین کا اکیلا بازاروں میں نکلنا معیوب بلکہ نا ممکن تھا. صرف مینا بازاروں میں سخت پردے میں آزادی سے خریداری کی جا سکتی تھی. ایک بار میں اور انوری جو میری چھوٹی بہن ہے نے والد سے ضد کی بازار گھمانے لے چلیں . ہم دونوں کیوں کہ کم عمر تھے اس لئے یہ پابندیاں ابھی ہم پر عائد نہ ہوئیں تھیں . کریم اللہ جو ہمارا گھریلو ملازم بلکہ اب تو خاندان کا فرد تھا اور برسات میں موڈ میں انے پر غضب کی کچوریاں بناتا تھا، ہمیں بازار لے جانے کے لئے بگھی گھر کی دہلیز تک لے آیا. بازار کی چہل پہل دیکھنا اور اپنی مرضی سے ایک ہی تھان سے بنا دونوں بہنوں کا ایک سا پھولدار جوڑا خریدنا اور ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ دیکھنا ہم دونوں کے لئے ایک انوکھا تجربہ تھا. گھر واپسی کے راستے میں تھے تو ہٹو بچو انگریز سرکار کی سواری کا شور مچا. بگھی ایک طرف کھڑی ہوئی تو میں نے بند چلمن کو نیوڑھا کے دیکھا. آگے پیچھے بھاگتے نیکر پہنے سپاہی اور تین گھڑ سوار . آگے تو گورا چٹا انگریز تھا اور ذرا پیچھے ہم تم جیسے افسر . حیرت ہوئی کہ یہ انگریز سرکار ہے یا ڈپٹی کلکٹر کی سواری. رمز بولا حیرت کی بات تو ہے اتنا چھوٹا ملک اور اتنا بڑا قبضہ ؟ پروف بولے . اصل میں یہ تمام فتوحات انتہائی نازک توازن پر قائم تھیں. وجہ یہ تھی کہ برطانیہ کی افرادی قوت بہت محدود تھی اور وہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے خطوں پر براہ راست حکمرانی کے قابل نہ تھا . برطانوی ذہن نے اس مسئلے کے حل کے لیے ایک مربوط نظام تشکیل دیا، کالے صاحب کا نظام ۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو اپنے حق میں جنگ کرنے اور حکمرانی کرنے کے لیے خطابات ، انعامات اور جاگیروں سے نواز کر ایک ایسی مقامی فوج اور بیوروکریسی تشکیل دی جس کی مدد سے وہ اتنے بڑے وسیع علاقے پر حکمرانی کو عملی طور پر ممکن بنا سکے. یعنی بیشتر فوج مقامی ہندوستانی سپاہیوں اور افسروں پر مشتمل اور انتظامی مشینری مقامی مگر ان کی سربراہی برطانوی افسران کی۔ مقامی وسائل کی لوٹ مار اور مقامی مفاد پرست افراد کو ذہانت کے ساتھ استعمال کرنے کی وجہ سے آنے والے دو سو برس برطانیہ نے نہ صرف ہندوستان بلکہ بیشتر دنیا پر کامیاب حکمرانی کی……جاری ہے