Skip to content
Home » Blog » کافی ہاؤس اور سمفنی – آسٹریا کہانی

کافی ہاؤس اور سمفنی – آسٹریا کہانی

  • by

پانچویں قسط


شارق علی
ویلیوورسٹی

ویانا سٹی سینٹر میں واقع یہ مشہور ریستوران بہت مصروف تھا۔ ہم رات کے کھانے سے فارغ ہو چکے تھے، لیکن رش دیکھ کر ڈیزرٹ کا انتظار کرنا مناسب نہ لگا۔ ادائیگی کی اور باہر آ کر سکون کا سانس لیا۔ ہماری منزل اسٹیٹ اوپیرا ہاؤس تھی۔ گوگل میپ کا سہارا لے کر پیدل سفر جاری رکھا۔ رات خوشگوار تھی۔ ہلکی خنکی نے دھیمی ہوا کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ مصروف شاہراہوں سے گزرتے اور پتھریلی گلیوں پر چلتے کہیں نہ کہیں کسی نوآموز فنکار کے وائلن یا گٹار کی دھن سنائی دے جاتی۔

ہمیں بھرپور کھانے کے بعد ہاٹ چاکلیٹ کی طلب تھی اور کسی روایتی کافی ہاؤس کی تلاش بھی۔ ویانا کا ثقافتی تجربہ کافی ہاؤس کی روایت سے آشنا ہوئے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک بارونق سڑک کے کنارے، زیبرا کراسنگ کے عین سامنے، ایک چھوٹا سا روایتی کافی ہاؤس نظر آیا۔ شیشے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔

یہ ایک الگ دنیا تھی۔ شیشے کے شوکیسوں میں سجے خوشرنگ کیک، کوکیز اور دیگر میٹھے لوازمات۔ ان کے پیچھے مختلف کافی ڈسپنسرز کے سامنے کھڑے، پرجوش، باوردی ملازمین—یہ جدت کی ترجمانی تھی۔ آرڈر دے کر ایک کونے میں بیٹھے تو روایت سے ملاقات ہوئی۔ دھیمی روشنی، لکڑی کی قدیم میزیں اور کرسیاں، دیواروں پر سجی پرانی پینٹنگز، اور ہوا میں معلق کافی کی تیز خوشبو۔ پس منظر میں کہیں دور سے آتی محسوس ہوتی موزارٹ کی دھن—پورا ماحول ایک مخصوص اور روایتی تہذیبی حسن کا عکاس تھا۔

ایک صاحب کتاب پڑھنے میں گم تھے، دو افراد اخبار میں مگن، اور ایک چھوٹا سا دوستوں کا گروپ دھیمے لہجے میں کسی موضوع پر گفتگو کر رہا تھا۔

ویانا کے کافی ہاؤس صرف چائے اور کافی پینے کے مقامات نہیں بلکہ تاریخی لحاظ سے دانشوروں، فلسفیوں، اور فنکاروں کے لیے فکری مکالمے کے مراکز رہے ہیں۔ یہی وہ مقامات تھے جہاں سگمنڈ فرائیڈ اور ویانا سرکل کے مفکرین نے اپنی سوچوں کو نکھارا۔ وہ یہاں بیٹھ کر مختلف نظریات پر بحث کرتے، کوفی پیتے ہوے تاریخ کے دھارے میں نئے خیالات کو شامل کرتے تھے۔ یہاں صرف چائے اور قہوہ نہیں تھا، بلکہ علم، ادب، اور فنونِ لطیفہ کی ہماہمی، توانائی، اور زندگی بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ویانا کے کافی ہاؤسز کو UNESCO نے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا ہے۔

ہاٹ چاکلیٹ سے لطف اندوز ہو چکے تو باہر نکلے۔ رات مزید دلکش ہو چکی تھی۔
کبھی کبھار ہلکی سی دھن کی گونج سنائی دے جاتی، جیسے پورا شہر ایک سمفنی ہو—

یہ وہی گلی کوچے ہیں جہاں موزارٹ اور بیتهوون جیسے عظیم موسیقاروں نے اپنی زندگیاں گزاریں۔ لازوال شاہکار تخلیق کیے جنہیں آج بھی دنیا کے بہترین اوپیرا ہاؤسز اور آرکسٹراز میں بجایا جاتا ہے۔

آج بھی ویانا فل ہارمونک آرکسٹرا دنیا کے بہترین آرکسٹراز میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ہر سال نیو ایئر کونسرٹ پیش کرتا ہے، جسے لاکھوں لوگ براہِ راست یا ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔ موزارٹ کا سابقہ گھر تو جیسے مقدس جگہ ہے جہاں موسیقی کے شوقین افراد آج بھی زیارت کے لیے آتے ہیں۔

اب ہم ویانا اسٹیٹ اوپیرا ہاؤس کے بالکل سامنے کھڑے تھے۔ لمحہ بھر کے لیے اس کی شان و شوکت دیکھ کر مبہوت ہونا جائز لگا۔ روشنیوں میں نہایا ہوا یہ اوپیرا ہاؤس اپنے شاندار نیو رینیساں طرزِ تعمیر کی وجہ سے یورپ کے عظیم ثقافتی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اونچے اور منقش ستون، سنہری سجاوٹ، بلند و بالا چھت، اور حیرت انگیز معماری تفصیلات دیکھ کر یوں لگا جیسے ہم تاریخ کے کسی زندہ فن پارے کے سامنے کھڑے ہوں۔

یہ اوپیرا ہاؤس 1869 میں موزارٹ کے اوپیرا ڈان جیوانی کے ساتھ کھولا گیا تھا۔ لیکن اس کی تعمیر کو ابتدا میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں اس کے معماروں میں سے ایک، ایڈورڈ وان ڈرنل، نے خودکشی کر لی تھی۔ دوسرا معمار صدمے کے باعث چل بسا۔ تاہم، وقت کے ساتھ اس عمارت کو معماری کا شاہکار تسلیم کر لیا گیا، اور آج یہ دنیا کے سب سے معزز اوپیرا ہاؤسز میں شمار ہوتا ہے۔

جنگِ عظیم دوم کے دوران 1945 میں اتحادی فوجوں کی بمباری نے اس کا بڑا حصہ تباہ کر دیا تھا، لیکن 1955 میں اسے بیتهوون کے اوپیرا فیڈیلیو کے ساتھ دوبارہ کھولا گیا۔ تب سے یہ جنگ کے بعد آسٹریا کی ثقافتی بحالی کی علامت بن گیا ہے۔ یہاں سالانہ اوپیرا بال منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں یورپ کے معززین اور شاہی شخصیات شرکت کرتی ہیں۔

یہاں کی جو بات مجھے اچھی لگی وہ یہ کہ اوپیرا دیکھنے کے لیے مہنگے ٹکٹ کے ساتھ ساتھ قطار میں کھڑے ہو کر ایک عام آدمی بھی 10 یورو کا ٹکٹ خرید کر ہر شو دیکھ سکتا ہے۔ یعنی دنیا کی بہترین پرفارمنس ایک عام آدمی کی دسترس میں بھی ہے۔ اس اوپیرا ہاؤس کا خفیہ زیرِ زمین نظام بھی شاندار ہے، جو ریہرسل ہالز، تکنیکی کمروں، اور اسٹوریج ایریاز پر مشتمل ہے۔

یہاں کھڑے ہو کر محسوس ہوا کہ ویانا ایک شہر نہیں، بلکہ ثقافتی داستان ہے—
ایسی داستان جس کے ہر موڑ پر موسیقی کی نئی دھن بکھری ہوئی ہے۔
ہر گلی، ہر عمارت میں تاریخ کا کوئی باب درج ہے۔ ہر دیوار پر آرٹ، ادب، اور تخلیق کا نیا منظر آباد ہے۔

۔۔۔ جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *