ڈوگن سٹی ایک تیرتی بستی: ٹینوکٹٹلان کی بازگشت
شارق علی
ویلیوورسٹی
ڈوگن سٹی نامی پروجیکٹ جاپان کا مستقبل کی رہایشی بستی کے حوالے سے ایک انقلابی تصور ہے۔ یہ درحقیقت ایک قدیم خیال کو جدید ٹیکنالوجی میں ڈھالنے کی کوشش ہے۔ جاپانی اسٹارٹ اپ این-آرک کی جانب سے تیار کردہ یہ منصوبہ 2030 تک مکمل ہونے کی امید ہے۔ سمندر پر تیرتی ہوئی یہ شہر نما بستی تقریباً چار کلومیٹر قطر پر محیط ہوگی، جس میں چالیس ہزار افراد رہائش اختیار کر سکیں گے۔ یہ شہر سمندری سطح میں اضافے اور قدرتی آفات کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔
اس کے نمایاں خدوخال میں ماڈیولر طرزِ تعمیر، قابلِ تجدید توانائی، زیرِ آب ڈیٹا سینٹرز، کلاؤڈ سے جُڑی طبی سہولیات، راکٹ لانچ پلیٹ فارم اور ٹیلی میڈیسن جیسی جدید سہولیات شامل ہوں گی۔ یہاں سمندری زراعت اور آبی خوراک کی کاشت جیسے منصوبے خودکفالت کا ذریعہ بنیں گے۔
لیکن یہ پہلی بار نہیں ہے کہ انسان نے پانی پر شہر بسانے کی کوشش کی ہو۔ 700 سال قبل، ازٹیک تہذیب نے 1325 میں ٹینوکٹٹلان کے نام سے ایک شاندار شہر لیک ٹیکسکوکو پر تعمیر کیا تھا۔ اس کی آبادی دو لاکھ سے زائد تھی۔ ازٹیک باشندوں نے چینامپاز (تیرتے کھیت) اور نہر و آبی راستوں کی مدد سے زراعت، آمدورفت اور پانی کے نظم کو انتہائی سلیقے سے سنبھالا تھا۔
یہ دونوں شہر، اگرچہ ایک دوسرے سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں، لیکن ایک مشترکہ انسانی تخیل، تخلیقی امنگ اور جبلّت کی عکاسی کرتے ہیں۔ قدرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ جینے اور نئی راہیں نکالنے کی دیرپاانسانی آرزو اور جستجو۔
جہاں ڈوگن سٹی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور حیاتیاتی جدت پر انحصار کرتی ہے، وہیں ٹینوکٹٹلان قدرتی توازن اور آبی انجینئرنگ کی بہترین مثال اور مظہر تھا۔
درحقیقت ڈوگن سٹی صرف مستقبل کی سمت قدم نہیں بڑھا رہا بلکہ یہ ماضی کی دانشمندی کو بھی ایک نئے انداز سے زندہ کر رہا ہے۔ اور ایسے اہم وقت میں جب دنیا کو ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔