چار سو ہیں سناٹے
فہمیدہ ریاض
چار سُو ہیں سنّاٹے
ہر طرف ہے ویرانی
ذوقِ وصل کی اب تو
خاک بھی نہیں باقی
رہ گئی تھی اک خواہش
میں نہ اس کو یاد آؤں
ایک تھی خلش دل میں
اس کو دُکھ نہ ہو کوئی
اے عزیز اندیشے
آ، گلے سے لپٹا لوں
اس کے ساتھ تھا کوئی
مسکرا رہا تھا وہ