پرویز ہودبھائی کی کتاب کا خلاصہ
“اسلام اور سائنس: مذہبی قدامت پرستی اور عقلیت پسندی کی جنگ”
شارق علی
ویلیوورسٹی
یہ کتاب ایک جراتمند فکری تجزیہ ہے جو اس بنیادی سوال پر مرکوز ہے:
“کیا اسلام اور جدید سائنس کے درمیان ہم آہنگی ممکن ہے؟”
مصنف اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب اسلامی تہذیب علم و سائنس کی علمبردار تھی۔ بغداد میں بیت الحکمہ کا قیام، اور ابنِ سینا، ابن الہیثم، اور الرازی جیسے جلیل القدر سائنس دانوں کی خدمات، اس سنہری دور کی روشن مثالیں ہیں۔
تاہم، ہودبھائی کے مطابق آج کا منظرنامہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
“آج دنیا کی تمام تہذیبوں میں سائنس سب سے زیادہ کمزور اسلامی دنیا میں ہے۔”
مصنف اس زوال کی بڑی وجہ مذہبی قدامت پرستی، تقلیدی ذہنیت اور تنقید و تحقیق سے خوف کو قرار دیتے ہیں، جو عقل و شعور کے ارتقا میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔
کتاب کے آخری حصے میں وہ اُن مبینہ “اسلامی سائنسی کانفرنسوں” پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں، جن میں جنّات سے توانائی کے حصول، جنت کی ساخت، آسمانوں کی رفتار، اور قرآن سے براہِ راست سائنسی نتائج اخذ کرنے جیسے دعوے کیے جاتے ہیں۔
وہ سوال اٹھاتے ہیں:
“کیا یہ سائنس ہے یا صرف مذہبی عقیدت کی بظاہر ساینسی شکل؟”
کتاب کا ایک مرکزی نکتہ یہ بھی ہے کہ:
“سائنس ایک سیکولر سرگرمی ہے، جو خدا کے انکار پر نہیں بلکہ مشاہدے، تجربے، اور دلیل پر مبنی ہے۔”
سائنس میں سچائی کا تعین مذہبی اتھارٹی کے بیانات سے نہیں، بلکہ ثبوت سے ہوتا ہے۔
مصنف آخر میں اپیل کرتے ہیں کہ اگر مسلم دنیا میں سائنسی ترقی مطلوب ہے تو ہمیں عقلیت، تنقیدی شعور، اور فکری برداشت کو اپنانا ہوگا، نہ کہ ان سے خوفزدہ ہونے کو۔