پانچ ہزار سال بعد بھی… سندھ کی بہتی لہریں
شارق علی
ویلیوورسٹی
میرے بچپن کا کچھ حصہ حیدرآباد، سندھ میں گزرا۔ آتے جاتے دریائے سندھ کو عبور کرنا معمول کی بات تھی۔ ہم اکثر پکنک منانے المنظر یا الجزیرہ جایا کرتے، جہاں سے دریا کا نظارہ دل چھو لینے والا ہوتا۔ ہمارے پھوپھا جامشورو میں رہتے تھے۔ ان سے ملنے جانا ہو یا کراچی کا سفر درپیش ہو، ہم جامشورو یا کوٹری کے پُل کو پار کرتے۔
متلاطم سیلابی کیفیت میں پانی کا جوش و خروش بھی، اور خشک موسموں میں اس کی خاموش پرسکونی بھی۔
شاید اسی لیے وادیٔ سندھ کی تہذیب (Indus Civilization) ہمیشہ میرے دل کے قریب رہی ہے۔ وہ تہذیب جس نے روم اور ایتھنز سے بھی ہزاروں سال قبل شہری منصوبہ بندی، صفائی کے نظام، زراعت اور تجارت میں وہ اصول اپنائے، جو آج بھی جدید معاشروں کو حیران کر دیتے ہیں۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بھی چپٹے پیندے والی وہ کشتیاں، جو موئن جو دڑو کے قریب لوگوں کو دریا پار کراتی ہیں، بالکل ویسی ہی ہیں جیسی انڈس مہروں پر کندہ ہیں۔ ایک تختی پر نقش کشتی میں ایک جھونپڑی، سرکنڈے کی چھت، دو پرندے، اور پیچھے دہری پتوار دکھائی گئی ہے، اور یہی ڈیزائن آج بھی زندہ ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں، بلکہ ثقافتی تسلسل کہلاتا ہے۔ ایک زندہ تہذیب کی سانسیں، جو آج بھی دریا کے ساتھ ساتھ بہتی ہیں۔
انڈس کے لوگ معیاری پیمائش کے اوزار، نکاسیٔ آب کے ڈھکے نظام، اور دوہری فصلوں کی کاشت جیسے پیچیدہ اصولوں پر عمل پیرا تھے۔ ان کی زرعی حکمتِ عملی، فلڈ مینجمنٹ اور دھات کاری میں مہارت ایسی تھی کہ آج کی تحقیق بھی انہیں حیرت سے دیکھتی ہے۔
میرا دوست، دریائے سندھ، محض پانی کا دھارا نہیں ہے۔ یہ تاریخ کا بہتا ہوا ورق ہے۔ میرے جیسے لاکھوں لوگوں کے لیے یہ ایک ذاتی یاد ہے، بچپن کا وہ رفیق، جو آج بھی ویسا ہی ہے، جیسا وہ کبھی تھا۔