پائیلا – اسپین کی بریانی ,اندلس کہانی، تیرہویں قسط
شارق علی، ویلیوورسٹی
ریسٹورانٹ پوش تھا، مگر ہم نے اندر کی بناوٹی سجاوٹ چھوڑ کر کشادہ فٹ پاتھ پر، نرم اور سنہری دھوپ میں، دو افراد کی گول میز پر آمنے سامنے بیٹھنا پسند کیا۔ ہلکی سی خنکی ماحول کو خوشگوار بنا رہی تھی۔ بائیں ہاتھ کے درخت کے سبز پتوں سے چھن کر آتی دھوپ کبھی ہمارے چہرے کو چھوتی اور کبھی میز پر رکھے گلدان میں سجے پھولوں کو۔ ہم الکازار پیلس کی سیر کر چکے تھے اور سیویئل کیتھیڈرل کے گائیڈڈ ٹور سے پہلے یہ ہمارا لنچ کا وقفہ تھا۔
ریسٹورانٹ میں زیادہ بھیڑ نہ تھی۔ ویٹر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہماری خاطر مدارت میں مصروف تھا۔
آرڈر تیار ہوا تو اس نے پہلے ایک فولڈیبل میز کھولی اور ہمارے ساتھ رکھ دی۔ پھر وہ ایک بڑا سا کالے رنگ کا ہاٹ پین اٹھا لایا، جس میں ہماری منگوائی ہوئی مشہور ہسپانوی ڈش پائیلا (Paella) تھی۔ بھاپ اڑاتی زعفران، زیتون کے تیل اور تازہ سمندری کھانوں کی خوشبو نے ماحول معطر کر دیا۔
ویٹر نے نفاست اور مہارت سے پائیلا کو پلیٹوں میں سرو کیا۔ سنہری چاولوں میں جھلملاتی سبزیاں، رسیلے جھینگے اور نرم کالاماری کے ٹکڑے کسی مصور کی رنگین تصویر کا منظر پیش کر رہے تھے۔
پائیلا کی ثقافتی جڑیں والینسیا سے جڑی ہیں، جہاں کے کسان کھیتوں میں دن بھر کی مشقت کے بعد اپنی مرضی کے اجزاء—چاول، سبزیاں اور کبھی کبھار خرگوش یا مرغی کا گوشت—ملا کر بڑے پین میں یہ ڈش پکاتے تھے۔ وقت کے ساتھ یہ دیہاتی کھانا شاہی دربار تک پہنچا اور پھر اسپین کی پہچان بن گیا۔
پائیلا میں زعفران کی شمولیت لازمی ہے، کیونکہ یہی اس کو سنہری رنگ اور منفرد خوشبو عطا کرتا ہے۔ چاول دانے دار اور نرم ہوتے ہیں، مصالحے نازک توازن کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔ کبھی زبان پر زیتون کے تیل کی ملائمت اُبھرتی ہے، کبھی لیموں کے چھڑکاؤ کی ہلکی کھٹاس، اور کبھی سمندری جھینگوں کا تازہ ذائقہ۔
اسپین اپنے Tapas کے لیے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ کھانے کے چھوٹے چھوٹے حصے ہیں، جو شام کی محفلوں میں دوستوں کے ساتھ کھاے جاتے ہیں—کبھی زیتون، کبھی گری دار میوے، تو کبھی گوشت کے چھوٹے ٹکڑے۔ یہ سب اسپین کی ثقافتی زندگی کا حصہ ہیں۔
لنچ کے بعد ہم سیویئل کیتھیڈرل کے گائیڈڈ ٹور کے گروپ میں شامل ہوئے۔ دروازے پر ٹکٹ دکھا کر ایک طویل رہداری سے گزرے جو ایک وسیع و عریض صحن میں کھلتی تھی۔ صحن کے کنارے لگے درخت صدیوں پرانے محسوس ہو رہے تھے، جیسے کسی قدیم مسجد کے صحن کے درخت جن کے سامنے نمازی صف باندھ کر کھڑے ہوتے ہوں گے۔
ایک جانب ایک چوکور بلند مینار دکھائی دیا۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ لا گیرالدا (La Giralda) ہے۔ یہ وہی مینار ہے جو دراصل مسجد کے مؤذن کے لیے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں کیتھیڈرل کے ساتھ شامل کر لیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مینار کے اندر سیڑھیاں نہیں بلکہ ڈھلوان راستے ہیں، جہاں روایت کے مطابق گھوڑا گاڑیاں اوپر تک جایا کرتی تھیں تاکہ مؤذن یا بعد میں گرجا کے خادم آسانی سے چوٹی تک پہنچ سکیں۔ آج بھی جب یہ مینار دیکھتے ہیں تو یہ کہانی زندہ محسوس ہوتی ہے۔
پھر ہم گروپ کے ساتھ کیتھیڈرل کے اندر داخل ہوئے۔ بلند و بالا ہال کی دیواروں اور محرابوں پر بنے شاندار نقش و نگار نے ہمیں اپنی جانب متوجہ کر لیا۔
گائیڈ نے بتایا کہ روم کے ویٹیکن سٹی کو چھوڑ کر یہ دنیا کا سب سے بڑا گوتھک چرچ ہے۔ اس کی تعمیر سن 1401 میں اُس وقت کی پرانی مسجد کے انہدام کے بعد شروع ہوئی۔ مسلمانوں کے بنائے ہوئے کچھ حصے، جیسے کشادہ صحن اور مینار، اب تک محفوظ ہیں۔
مرکزی ہال کا منظر دل موہ لینے والا تھا۔ بلند چھتیں، رنگین شیشوں کی کھڑکیاں جن سے روشنی چھن کر آتی تھی، اور ہر سمت پرتعیش آرائش۔ اطراف میں چھوٹے چھوٹے چیپلز بنے تھے، جنہیں امیر جاگیرداروں اور شاہی خاندان کے امراء نے اپنے اخراجات سے تعمیر کرایا تھا تاکہ اپنی قبریں اور عبادت گاہیں الگ اور مخصوص رکھ سکیں۔
سب سے زیادہ متاثر کن حصہ مرکزی قربان گاہ تھی، جس کی آرائش میں تقریباً ایک صدی لگی۔ سنہری مجسمے اور جِلد دار لکڑی کی نفیس کٹائی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کتنی محنت اور دولت صرف ہوئی ہوگی۔
پھر گائیڈ نے ایک دلچسپ مگر متنازعہ بات بھی بتائی: یہاں کرسٹوفر کولمبس کی قبر بھی موجود ہے۔ صدیوں تک یہ تنازعہ رہا کہ اس کی باقیات کہاں دفن ہیں۔ حتیٰ کہ بیسویں صدی میں ڈی این اے ٹیسٹ تک کروائے گئے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اس کے کچھ اجزاء واقعی سیویئل میں ہیں۔ آج یہ قبر سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے۔ مگر ہم نے ذاتی طور پر کوئی خاص دلچسپی محسوس نہ کی اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیے۔
سیر ختم ہوئی تو ہم پیدل ہی مصروف بازاروں سے گزرتے ہوئے ہوٹل واپس آئے۔ کچھ دیر آرام کیا، کیونکہ اس شام ہمیں فلیمینکو ڈانس دیکھنے جانا تھا۔
۔۔۔ جاری ہے