In the midst of Venice, a city of small islands where there are no roads just canals including Grand Canal lined with Renaissance and Gothic palaces, Professor Gill comes across a tragic story of a Europe immigrant
I am Azm, a student at Sage University. Enjoy stories by me, my friends and teachers from every corner of the globe in this Urdu / Hindi Podcast serial
Listen, read, reflect and enjoy!
وینس کے دکھ ، سیج ، انشے سیریل، پینتالیسواں انشا، شارق علی
ٹریویسو ایئر پورٹ سے نکلے تو ایئر پورٹ کوچ وینس جانے کے لیے تیار تھی۔ بیگ پیکس نچلی منزل کی لگیج سپیس میں رکھ کر اوپری منزل پر ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ پروفیسرگل اٹلی کا ذکر کررہے تھے، بولے،’’ ٹریویسو سر سبز و شاداب شہر ہے۔ جدید اور قدیم عمارتیں اور مضافات میں کھیت اور فارم ہائوسز کے سلسلے ، پھر سمندر پر بنے کوئی میل بھر طویل پُل کو عبور کرکے وینس کے مرکزی بس اڈے پر اُترے۔ بیگ پیک کندھوں پر ڈالا اور گرینڈ کینال کو شیشے اور فولاد سے بنے جدید پُل کے ذریعے پیدل عبور کرکے سینٹ لوشیا ریلوے اسٹیشن کے ساتھ بنے شاپنگ مال میں پہنچے. ضرورت کی چیزیں خرید کر گوگل میپ کی مدد سے گرینڈ کینال کے دوسرے کنارے پر واقع اپنے ہوٹل پہنچے۔ سامان کمرے میں رکھا اور وینس سے شناسائی کے لئے نکلے ، کیسا ہے وینس؟ سوفی نے پوچھا۔ بولے، بہت منفرد حسن ہے اس شہر کا۔ ایک سو سترہ قدرتی اور تعمیر شدہ چھوٹے جزیرے جو پینتالیس سے ستر فُٹ گہرے سمندری پانی کے گھیرے میں ہیں۔ کوئی ڈیڑھ سو نہروں کو پھلانگتے چار سو سے زائد خوبصورت پُل، گویا ایک بہتی ہوئی جنت۔ سب سے بڑی نہر گرینڈ کینال کہلاتی ہے۔ جو اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ کناروں پر بنی دلکش سینکڑوں برس پرانی تاریخی عمارتیں ایک پراسرار تاثر رکھتی ہیں۔ اُن کے بیچ سے گزرتی تنگ گلیاں جیسے بھول بھلیاں۔ جہاں بھی ٹھہرو واپس لوٹنے کے لیے کسی قریبی تاریخی یاگار، دکان یا پُل کو نشانی کے طور پر یاد رکھنا ضروری ہے ورنہ اجنبی شہر میں کھو جانے کا مزہ لو ۔ وہاں کا موسم اور لوگ؟ رمز نے پوچھا۔ بولے، نکھری ہوئی دھوپ، نیلے آسمان تلے گنگناتی نہروں میں تیرتی کشتیاں ، ہر طرف جدید دکانیں اور ریستوران اور خوش لباس، خوش رُو سیاحوں کی پُر مسرت بھیڑ۔ پھر عدنان اچانک یوں ملا جیسے خوشیوں بھری زندگی میں کوئی غیر متوقع حادثاتی دکھ۔ سینٹ لوشیا اسٹیشن کے سامنے گرینڈ کینال کو عبور کرتے پُل پر وہ آتے جاتے سیاحوں کو سیلفی اسٹک بیچ رہا تھا۔ کچھ بولے بغیرمحض عملی مظاہرے سے فون کو اسٹک پر لگا کر سیلفی کھینچنے کی آسانی۔ بعض فرانسیسی، امریکی، اطالوی ، کورین اور دیگر سیاحوں کو قائل کر لیتی اور یوں کچھ آمدنی ہوجاتی۔ پانچ یورو کی سیلفی اسٹک خریدی تو چند مسکراہٹوں کے تبادلے کے بعد گورے چٹے، درمیانے قد کے چھبیس سالہ شامی پناہ گزین نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔ اور وہ کیا تھی؟ میں بے صبرایا۔ بولے، جنگ سے بے حال شام کی سرحد عبور کرکے مہینوں کی پرمشقت مسافت طے کرنے کے بعد وہ ترکی میں اسمگلروں سے ملا تھا جو پندرہ سو یورو لے کر مضبوط بوٹ میں یورپ پہنچانے کا انتظام کرتے تھے۔ ساحل پر پہنچے تو بوٹ تو نہیں ربڑ کی کشتی، جو ڈِنگی کہلاتی ہے، کا انتظام تھا جس میں چالیس کے بجائے نوے مسافر ٹھونسے گئے تھے۔ ساحل سے لوٹ جانا بے حد مشکل فیصلہ تھا۔ سامنے ایجین سمندر کی بے رحم لہریں اور اُن کے پار یورپ میں آسودہ زندگی کی اُمید تھی۔ وہ ڈنگی میں سوار ہوگیا۔ کشتی گہرے سمندر میں ڈوبنے اُبھرنے لگی تو انٹرنیشنل ریسکیو ٹیم کی مدد سے وہ یونانی جزیرے لیسبوس پہنچے۔ کیمپ میں قیام اور پھر یورپ میں مزدوری کی جدوجہد کے ذکر سے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ میں سوچنے لگا شام، عراق، لیبیا اور افغانستان میں جنگ کی تباہی اور افریقہ، پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں بھوک اور بے روزگاری کی اذیت نجانے کتنے معصوموں کو ایجین سمندر میں ڈوبنے، فرانس اور انگلینڈ کی سرحدی ٹنل میں آنسو گیس سے دم گھٹنے، لاریوں میں بھوکے پیاسے کئی دنوں چھپ کر سفر کرنے یا ہنگری سربیا سرحد پر جیل جانے کی اذیت پر مجبور کردیتی ہوگی۔ پھر خیال آیا کہ یہ حسین شہر بھی تو ٹریویسو سے جنگ کے ڈر سے بھاگے ہوئے لوگوں نے پندرہ سو سال پہلے بسایا تھا۔ اور اب جزیروں کی یہ جنت موسمی تبدیلی کے سبب سطحِ سمندر کی بلندی سے ہار کر ملی میٹرز کے حساب سے آہستہ آہستہ ڈوب رہی ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں آبادی ایک لاکھ بیس ہزار سے گھٹ کر ساٹھ ہزار رہ گئی ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ دو ہزار تیس تک یہ ایک ویران شہر ہوگا۔ صرف سیاحوں کی قیام گاہ۔ میں اُداس قدموں سے اپنی قیام گاہ کی سمت چلنے لگا۔– جاری ہے