Skip to content
Home » Blog » ویلور کا سرپھرا کنواں

ویلور کا سرپھرا کنواں

  • by

ویلور کا سرپھرا کنواں

شارق علی
ویلیوورسٹی

جب سورج کی تمازت حد سے بڑھ جائے، زمین پیاسی ہو، بادلوں کا دور دور تک نام و نشان نہ ہو، اور درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں محض ایک خواب بن جائے—ایسے میں اگر کہیں زیرِ زمین پانی کا کوئی ایسا ذریعہ موجود ہو جس تک پہنچنے کے لیے آپ قدم بہ قدم زمین کے اندر اترتے چلے جائیں، تو کیسا لگے؟ گھومتی ہوئی سیڑھیاں آپ کو نشیب در نشیب ٹھنڈے کمروں اور بالکونیوں تک لے جائیں، اور وہاں سے اٹھنے والی ٹھنڈی ہوائیں گرمی کے احساس کو خوشگواری میں بدل دیں—تو یہ منظر کسی خواب سے کم نہ ہوگا۔

میں کسی دیومالائی کہانی کی بات نہیں کر رہا، بلکہ یہ حقیقت ہے۔
یہ ذکر ہے مہاراشٹرا کے شہر ویلور میں واقع ایک منفرد کنویں کا، جسے ہیلیکل اسٹیپ ویل یا “گھومتی سیڑھیوں والا کنواں” کہا جاتا ہے۔ اس کنویں کے گرد تعمیر کی گئی رہائشی گنجائشیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ صرف پانی کی تلاش کا حل نہیں تھا بلکہ ایک شاندار انجینئرنگ کا نمونہ بھی تھا، جو اُس دور کے معماروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ کنواں سولہویں صدی میں تعمیر ہوا، جب نہ بجلی تھی، نہ مشینی آلات، اور نہ ہی سیمنٹ جیسی سہولیات موجود تھیں۔ اس کے باوجود، اس کی ساخت، سیڑھیوں کی ترتیب، اور رہائشی حصے اس قدر خوبصورت اور مربوط ہیں کہ آج کے ماہرین فنِ تعمیر بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔

یہ جگہ محض پانی حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں تھی۔ لوگ یہاں عبادت کے لیے آتے، گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے پناہ لیتے، تہوار مناتے، روزمرہ کی گفتگو کرتے اور سماجی تقریبات منعقد کرتے۔ یہ کنواں ایک طرف پانی فراہم کرتا، تو دوسری جانب دلوں کو جوڑنے والا سماجی مرکز بھی تھا۔

اس کا ہیلیکل ڈیزائن—یعنی گھومتی ہوئی سیڑھیاں—ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی فنکارانہ بھنور آپ کو زمین کے اندر لے جا رہا ہو۔ نیچے اترتے ہوئے یہ راستہ ایک خاموش میوزیم میں تبدیل ہو جاتا ہے، جہاں پتھر، روشنی، سایے، اور انسانی فنکاری آپس میں سرگوشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

آج یہ اسٹیپ ویل ایک تاریخی یادگار ہے۔ ایک زندہ گواہی کہ انسان جب فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر تخلیق کرے، تو وہ بظاہر ناقابلِ یقین چیزیں بھی ممکن بنا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *